آفتاب شمسی کی نظم

    واپسی

    موت کی پر سکوت بستی کو دے کے اک زندگی کا نذرانہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹے ہیں سب کے چہرے ہیں فرط غم سے نڈھال سب کی آنکھیں چھلک گئی ہیں آج پھر بھی سرحد میں شہر کی آ کر ہنستے بچوں کو کھیلتا پا کر دیکھ کر زندگی کے ہنگامے ایسا محسوس کر رہے ہیں سب جیسے افسردگی کے صحرا سے کوئی آواز دے کے ...

    مزید پڑھیے

    پہلی تاریخ

    درد کی ساعتوں سے گھبرا کر فائلوں سے دلوں کو بہلا کر کیا بتائیں کہ کس طرح ہم نے تیری فرقت میں دن گزارے ہیں تیری آمد ہمارے چہرے پر آج اک تازگی سی لے آئی لیکن اس عارضی مسرت کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں چند لمحوں میں یہ نئے کاغذ ہم سے اس طرح دور بھاگیں گے جس طرح چند قرض داروں کی پیچھا ...

    مزید پڑھیے

    گزرتے لمحوں کا ماتم

    سنہرے خوابوں کی وادی میں مدتوں ہم نے کئی مکان بسائے کئی مکیں بدلے تمام عمر رہا انتظار کا عالم گزرتے لمحوں کا ماتم کیا نڈھال رہے نہ دوستوں میں کوئی اب نہ دشمنوں میں کوئی ہمارے ماضی کا ہم سے حساب لے کر جو ہمارے سود و زیاں کا لگا کے اندازہ ہمیں بتائے کہ کیا کھویا ہم نے کیا پایا بس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2