آفتاب شمسی کی غزل

    جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے

    جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے اب آر پار یہ پتھر دکھائی دیتا ہے جو اپنے آپ سے لڑنے کو بڑھتا ہے آگے لہو میں اپنے وہی تر دکھائی دیتا ہے تمام خلق کو پتھر بنا گیا کوئی مجھے یہ خواب اب اکثر دکھائی دیتا ہے زمین ساتھ مرا چھوڑتی ہے جب تو فلک جھکا ہو مرے سر پر دکھائی دیتا ہے

    مزید پڑھیے

    کوئی اچھی سی غزل کانوں میں میرے گھول دے

    کوئی اچھی سی غزل کانوں میں میرے گھول دے قید تنہائی میں ہوں میں مجھ کو آ کر کھول دے یہ تناؤ جسم کا بڑھنے نہیں دے گا تجھے چست پیراہن میں تو اپنے ذرا سا جھول دے ایک لڑکی جل رہی ہے چلچلاتی دھوپ میں کوئی بادل آ کے اس پر اپنی چھتری کھول دے راہ تکتے جسم کی مجلس میں صدیاں ہو گئیں جھانک ...

    مزید پڑھیے

    آزردگی کا اس کی ذرا مجھ کو پاس تھا

    آزردگی کا اس کی ذرا مجھ کو پاس تھا میں ورنہ آج اس سے زیادہ اداس تھا سورج نہیں تھا دور سوا نیزے سے مگر میری انا کا سایہ مرے آس پاس تھا اب آ کے سو گیا ہے سمندر کی گود میں دریا میں ورنہ شور ہی اس کی اساس تھا روحیں اٹھیں گلے ملیں واپس چلی گئیں اس راز کے چھپانے کو تن پر لباس تھا پڑھ ...

    مزید پڑھیے

    اسیر جسم ہوں دروازہ توڑ ڈالے کوئی

    اسیر جسم ہوں دروازہ توڑ ڈالے کوئی گرا پڑا ہوں کنوئیں میں مجھے نکالے کوئی میں اپنے آپ میں اترا کھڑا ہوں صدیوں سے قریب آ کے مرے میری تھاہ پا لے کوئی میں جنگلوں میں درندوں کے ساتھ رہتا رہا یہ خوف ہے کہ اب انساں نہ آ کے کھا لے کوئی شکستہ کشتی کے تختے پہ سو رہا ہوں میں تھپیڑا موجوں ...

    مزید پڑھیے

    دیر تک رات اندھیرے میں جو میں نے دیکھا (ردیف .. ٰ)

    دیر تک رات اندھیرے میں جو میں نے دیکھا مجھ سے بچھڑے ہوئے اک شخص کا چہرہ ابھرا قسمیں دے دے کے مرے ہاتھوں نے مجھ کو روکا میں نے دیوار سے کل نام جب اس کا کھرچا دیکھ کر اس کو لگا جیسے کہیں ہو دیکھا یاد بالکل نہیں آیا مجھے گھنٹوں سوچا موم بتی کو گلاتا رہا دھیرے دھیرے رات اندھیرے کا ...

    مزید پڑھیے

    پیام آشتی اک ڈھونگ دوستی کا تھا

    پیام آشتی اک ڈھونگ دوستی کا تھا ملا وہ ہنس کے تقاضا یہ دشمنی کا تھا کھڑا کنارے پہ میں اپنی تھاہ کیا پاتا کہ یہ معاملہ عرفان و آگہی کا تھا میں اس کے سامنے غیروں سے بات کرتا رہا اگرچہ سودا مرے سر میں بس اسی کا تھا کئی عمارتوں کو اپنا گھر سمجھ کے جیا مرے مکان میں فقدان روشنی کا ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹا ہوا آئینہ جو رستے میں پڑا تھا

    ٹوٹا ہوا آئینہ جو رستے میں پڑا تھا سورج کی طرح میری نگاہوں میں چبھا تھا نام اپنا ہی میں سب سے کھڑا پوچھ رہا تھا کچھ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا تھا آنکھوں کے دریچے نظر آتے تھے مقفل اور ذہن کے کمرے میں دھواں پھیل رہا تھا جاتی ہوئی بارات نے اک لمحہ ٹھٹک کر ٹھہری ہوئی اک لاش ...

    مزید پڑھیے

    جوئے رواں ہوں ٹھہرا سمندر نہیں ہوں میں

    جوئے رواں ہوں ٹھہرا سمندر نہیں ہوں میں جو نسب ہو چکا ہو وہ پتھر نہیں ہوں میں سورج کا قہر دیکھیے مجھ پر کہ آج تک خود اپنے سائے کے بھی برابر نہیں ہوں میں میں پگھلا جا رہا ہوں بدن کے الاؤ میں اور کہہ رہا ہوں موم کا پیکر نہیں ہوں میں مٹی سفر کی پیروں میں آنکھوں میں ایک خواب ٹھہروں ...

    مزید پڑھیے

    سبھی بچھڑ گئے مجھ سے گزرتے پل کی طرح

    سبھی بچھڑ گئے مجھ سے گزرتے پل کی طرح میں گر چکا ہوں کسی خواب کے محل کی طرح نواح جسم میں روتا کراہتا دن رات مجھے ڈراتا ہے کوئی مری اجل کی طرح یہ شہر ہے یہاں اپنی ہی جستجو میں لوگ ملیں گے چلتے ہوئے چیونٹیوں کے دل کی طرح میں اس سے ملتا رہا آج کی توقع پر وہ مجھ سے دور رہا آنے والے کل ...

    مزید پڑھیے

    تلاش قافیہ میں عمر سب گزاری ہے

    تلاش قافیہ میں عمر سب گزاری ہے تو پختگی جسے کہتا ہے خامکاری ہے سبھی ہیں اپنے مگر اجنبی سے لگتے ہیں یہ زندگی ہے کہ ہوٹل میں شب گزاری ہے وہ سارے دن رہا دفتر میں اور رات ڈھلے نظر کے کاسے میں اک خواب کا بھکاری ہے کچھ ایسا بچھڑا ہوں خود سے کہ مل نہیں سکتا اگرچہ کام بہ ظاہر یہ اختیاری ...

    مزید پڑھیے