Aftab Hussain

آفتاب حسین

ممتاز پاکستانی شاعر، آسٹریا میں مقیم، سنجیدہ شعری حلقوں میں مقبول

Prominent Pakistani poet who lives in Austria, well-known to serious poetry circles.

آفتاب حسین کی غزل

    جب سفر سے لوٹ کر آنے کی تیاری ہوئی

    جب سفر سے لوٹ کر آنے کی تیاری ہوئی بے تعلق تھی جو شے وہ بھی بہت پیاری ہوئی چار سانسیں تھیں مگر سینے کو بوجھل کر گئیں دو قدم کی یہ مسافت کس قدر بھاری ہوئی ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی اس طرح چالیں بدلتا ہوں بساط دہر پر جیت لوں گا جس ...

    مزید پڑھیے

    دے رہے ہیں جس کو توپوں کی سلامی آدمی

    دے رہے ہیں جس کو توپوں کی سلامی آدمی کیا کہوں تم سے کہ ہے کتنا حرامی آدمی بھیڑ چھٹ جائے گی تب اس کی سمجھ میں آئے گا ایک اکیلا آدمی ہے اژدہامی آدمی کیا دکھاتے ہو میاں، پرچہ ہمیں اخبار کا ہم نے دیکھے ہیں بہت نامی گرامی آدمی پاؤں میں جوتا نہیں ہے، پیٹ میں روٹی نہیں لے کے کیا چاٹے ...

    مزید پڑھیے

    اسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا

    اسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا پرانی خاک پہ تعمیر ہے نئی دنیا میں اپنے آپ میں گم تھا مجھے خبر نہ ہوئی گزر رہی تھی مجھے روندتی ہوئی دنیا ہر آدمی کو یہ دنیا بدل کے رکھ دے گی بدل سکا نہ اگر اب بھی آدمی دنیا نئی ہوا کو مدد کے لیے پکارتی ہے خود اپنی آگ میں جلتی ہوئی نئی دنیا میں جس ...

    مزید پڑھیے

    کسی طرح بھی تو وہ راہ پر نہیں آیا

    کسی طرح بھی تو وہ راہ پر نہیں آیا ہمارے کام ہمارا ہنر نہیں آیا وہ یوں ملا تھا کہ جیسے کبھی نہ بچھڑے گا وہ یوں گیا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا ہم آپ اپنا مقدر سنوار لیتے مگر ہمارے ہاتھ کف کوزہ گر نہیں آیا خبر تو تھی کہ مآل سفر ہے کیا لیکن خیال ترک سفر عمر بھر نہیں آیا میں اپنی آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    کہاں کسی پہ یہ احسان کرنے والا ہوں

    کہاں کسی پہ یہ احسان کرنے والا ہوں میں اپنے آپ کو حیران کرنے والا ہوں عجیب رنگ کی خوشبو ہے میرے کیسے میں میں شہر بھر کو پریشان کرنے والا ہوں کھلا رہے گا کسی یاد کے جزیرے پر یہ باغ میں جسے ویران کرنے والا ہوں دعائیں مانگتا ہوں سب کی زندگی کے لیے اور اپنی موت کا سامان کرنے والا ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک بات کی اس کو خبر ضروری ہے

    بس ایک بات کی اس کو خبر ضروری ہے کہ وہ ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے دلوں میں درد کی دولت بچا بچا کے رکھو یہ وہ متاع ہے جو عمر بھر ضروری ہے نہیں ضرور کہ مقدور ہو تو ساتھ رکھیں کبھی کبھار مگر نوحہ گر ضروری ہے کبھی تو کھیل پرندے بھی ہار جاتے ہیں ہوا کہیں کی بھی ہو مستقر ضروری ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    راستہ خواب کے اندر سے نکلتا ہوا تھا

    راستہ خواب کے اندر سے نکلتا ہوا تھا کوئی کیا خواب کے اندر سے نکلتا ہوا تھا وہ مہک تھی کہ مجھے نیند سی آنے لگی تھی پھول سا خواب کے اندر سے نکلتا ہوا تھا یہ کسی خواب کا احوال نہیں ہے کہ میں خواب دیکھتا خواب کے اندر سے نکلتا ہوا تھا خواب تھے جیسے پرندوں نے پرے باندھے ہوں سلسلہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ جبر بھی ہے بہت اختیار کرتے ہوئے

    یہ جبر بھی ہے بہت اختیار کرتے ہوئے گزر رہی ہے ترا انتظار کرتے ہوئے کلی کھلی تو اسی خوش سخن کی یاد آئی صبا بھی اب کے چلی سوگوار کرتے ہوئے ترے بدن کے گلستاں کی یاد آتی ہے خود اپنی ذات کے صحرا کو پار کرتے ہوئے یہ دل کی راہ چمکتی تھی آئنے کی طرح گزر گیا وہ اسے بھی غبار کرتے ہوئے خود ...

    مزید پڑھیے

    وہ سر سے پاؤں تک ہے غضب سے بھرا ہوا

    وہ سر سے پاؤں تک ہے غضب سے بھرا ہوا میں بھی ہوں آج جوش طلب سے بھرا ہوا شورش مرے دماغ میں بھی کوئی کم نہیں یہ شہر بھی ہے شور و شغب سے بھرا ہوا ہاں اے ہوائے ہجر ہمیں کچھ خبر نہیں یہ شیشۂ نشاط ہے جب سے بھرا ہوا ملتا ہے آدمی ہی مجھے ہر مقام پر اور میں ہوں آدمی کی طلب سے بھرا ہوا ٹکراؤ ...

    مزید پڑھیے

    اپنا دیوانہ بنا کر لے جائے

    اپنا دیوانہ بنا کر لے جائے کبھی وہ آئے اور آ کر لے جائے روز بنیاد اٹھاتا ہوں نئی روز سیلاب بہا کر لے جائے حسن والوں میں کوئی ایسا ہو جو مجھے مجھ سے چرا کر لے جائے رنگ رخسار پہ اتراؤ نہیں جانے کب وقت اڑا کر لے جائے کسے معلوم کہاں کون کسے اپنے رستے پہ لگا کر لے جائے آفتابؔ ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4