اسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا

اسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا
پرانی خاک پہ تعمیر ہے نئی دنیا


میں اپنے آپ میں گم تھا مجھے خبر نہ ہوئی
گزر رہی تھی مجھے روندتی ہوئی دنیا


ہر آدمی کو یہ دنیا بدل کے رکھ دے گی
بدل سکا نہ اگر اب بھی آدمی دنیا


نئی ہوا کو مدد کے لیے پکارتی ہے
خود اپنی آگ میں جلتی ہوئی نئی دنیا


میں جس حوالے سے دنیا پہ غور کرتا ہوں
اسی طرح سے کبھی کاش سوچتی دنیا


میں اپنے اصل کی جانب رواں دواں ہوں اور
بلا رہی ہے مسلسل مجھے مری دنیا


عجیب خواب تھا جس نے مجھے خراب کیا
مری گرفت میں آ کر نکل گئی دنیا