Aftab Hussain

آفتاب حسین

ممتاز پاکستانی شاعر، آسٹریا میں مقیم، سنجیدہ شعری حلقوں میں مقبول

Prominent Pakistani poet who lives in Austria, well-known to serious poetry circles.

آفتاب حسین کی غزل

    نگاہ کے لیے اک خواب بھی غنیمت ہے

    نگاہ کے لیے اک خواب بھی غنیمت ہے وہ تیرگی ہے کہ یہ روشنی غنیمت ہے چلو کہیں پہ تعلق کی کوئی شکل تو ہو کسی کے دل میں کسی کی کمی غنیمت ہے کم و زیادہ پہ اصرار کیا کیا جائے ہمارے دور میں اتنی سی بھی غنیمت ہے بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ نظر اٹھا کہ یہ نظارگی غنیمت ہے نہ جانے ...

    مزید پڑھیے

    اسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا

    اسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا پرانی خاک پہ تعمیر ہے نئی دنیا میں اپنے آپ میں گم تھا مجھے خبر نہ ہوئی گزر رہی تھی مجھے روندتی ہوئی دنیا ہر آدمی کو یہ دنیا بدل کے رکھ دے گی بدل سکا نہ اگر اب بھی آدمی دنیا نئی ہوا کو مدد کے لیے پکارتی ہے خود اپنی آگ میں جلتی ہوئی نئی دنیا میں جس ...

    مزید پڑھیے

    دل بھی آپ کو بھول چکا ہے

    دل بھی آپ کو بھول چکا ہے صاحب آپ سے پردہ کیا ہے کہنے سننے کی باتیں ہیں کون کسے اپنا سکتا ہے عشق میں کیا سچا کیا جھوٹا یہ تو عمروں کا رونا ہے حال ہمارا پوچھنے والے کیا بتلائیں سب اچھا ہے کیا کیا بات نہ بن سکتی تھی لیکن اب کیا ہو سکتا ہے اب بھی دل کے دروازے پر ایک دیا جلتا رہتا ...

    مزید پڑھیے

    شب سیاہ پہ وا روشنی کا باب تو ہو

    شب سیاہ پہ وا روشنی کا باب تو ہو مگر یہ شرط ہے کوئی ستارہ یاب تو ہو میں حرف بن کے تری روح میں اتر جاؤں مرا سخن تری محفل میں باریاب تو ہو سواد شب کے سفر میں ستارہ وار چلوں ترے جمال کی لو میری ہم رکاب تو ہو کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو اساس ...

    مزید پڑھیے

    ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا

    ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا اور میں ہوں اپنے خواب کے اندر کھلا ہوا یہ میں جو رات دن نہیں اپنے حواس میں وہ باغ ہے ضرور کہیں پر کھلا ہوا کچھ میرے سر کو بھی تھی مہک سی چڑھی ہوئی کچھ وہ بھی سامنے تھا برابر کھلا ہوا خوابوں میں خوشبوئیں سی خیالوں میں رنگ سے یہ باغ ہو اگر کہیں ...

    مزید پڑھیے

    اس اندھیرے میں جو تھوڑی روشنی موجود ہے

    اس اندھیرے میں جو تھوڑی روشنی موجود ہے دل میں اس کی یاد شاید آج بھی موجود ہے وقت کی وحشی ہوا کیا کیا اڑا کر لے گئی یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ اس کی کمی موجود ہے کون جانے آنے والے پل میں یہ بھی ہو نہ ہو دھوپ کے ہم راہ یہ جو چھانو سی موجود ہے

    مزید پڑھیے

    کسی نظر نے مجھے جام پر لگایا ہوا ہے

    کسی نظر نے مجھے جام پر لگایا ہوا ہے سو کرتا رہتا ہوں جس کام پر لگایا ہوا ہے غلط پڑے نہ کہیں پہلا ہی قدم یہ ہمارا کہ ہم نے آنکھ کو انجام پر لگایا ہوا ہے تمام شہر مشرف بہ کفر ہو کے رہے گا یہ جس قماش کے اسلام پر لگایا ہوا ہے لگا رکھے ہیں ہزاروں ہی اپنے کام پر اس نے ہمیں بھی کوشش ...

    مزید پڑھیے

    مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے

    مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے کہیں کیا سلسلہ دل کا کہاں پر جا نکلتا ہے مژہ تک آتا جاتا ہے بدن کا سب لہو کھنچ کر کبھی کیا اس طرح بھی یاد کا کانٹا نکلتا ہے دکان دل بڑھاتے ہیں حساب بیش و کم کر لو ہمارے نام پر جس جس کا بھی جتنا نکلتا ہے ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دیر کو چمکا تھا وہ ستارہ کہیں

    ذرا سی دیر کو چمکا تھا وہ ستارہ کہیں ٹھہر گیا ہے نظر میں وہی نظارہ کہیں کہیں کو کھینچ رہی ہے کشش زمانے کی بلا رہا ہے تری آنکھ کا اشارہ کہیں یہ لہر بہر جو ملتی ہے ہر طرف دل میں بدل گیا ہی نہ ہو زندگی کا دھارا کہیں یہ سوچ کر بھی تو اس سے نباہ ہو نہ سکا کسی سے ہو بھی سکا ہے مرا گزارہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں

    کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں کچھ اور بھی اسے دشوار کرنے لگتا ہوں مرے وجود کے اندر بھڑکنے لگتا ہے جب اس چراغ کا انکار کرنے لگتا ہوں نظر میں لاتا ہوں اس چشم نیم باز کو میں اور اپنے آپ کو بیمار کرنے لگتا ہوں جہاں بھی کوئی ذرا ہنس کے بات کرتا ہے میں اپنے زخم نمودار کرنے لگتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4