Afroz Alam

افروز عالم

افروز عالم کی غزل

    جگر کو خون کئے دل کو بے قرار ابھی

    جگر کو خون کئے دل کو بے قرار ابھی بھٹک رہے ہیں ترے عشق میں ہزار ابھی اسی لئے تو یہ دنیا دھلی دھلی سی لگے ترے فراق میں روئے ہیں زار زار ابھی ادائے خار سے گلشن کی بڑھ گئی زینت اگرچہ پھولوں کے دامن ہیں تار تار ابھی سیاہ بخت فضاؤں میں دل ہوا بد ظن تری زبان کے تیور ہیں آب دار ...

    مزید پڑھیے

    یوں خبر کسے تھی میری تری مخبری سے پہلے

    یوں خبر کسے تھی میری تری مخبری سے پہلے میں مسرتوں میں گم تھا تری دوستی سے پہلے ترے حسن نے جگایا میرے عشق بے بہا کو تری جستجو کہاں تھی مجھے شاعری سے پہلے تو شریک زندگی ہے میں ہوں غم گسار تیرا تیرا غم رہا ہے شامل میری ہر خوشی سے پہلے دے اگر مجھے اجازت جو مرا ضمیر مجھ کو میں تجھے ...

    مزید پڑھیے

    مرے عزیزو تمہیں سناؤں وہ حال اپنا جو چل رہا ہے

    مرے عزیزو تمہیں سناؤں وہ حال اپنا جو چل رہا ہے خموشیوں کے حسین جھرمٹ میں دم ہمارا نکل رہا ہے سبھی دلیلیں ہوئیں ہیں ناقص ہے خوں سے لت پت ہر ایک منظر ہر ایک اعلیٰ ذہین و دانش قدم قدم پہ سنبھل رہا ہے عجب فضاؤں کا رخ ہوا ہے زمیں کی چادر سرک چکی ہے قدم جہاں پہ میں رکھ رہا ہوں وہیں سے ...

    مزید پڑھیے

    شمس معدوم ہے تاروں میں ضیا ہے تو سہی

    شمس معدوم ہے تاروں میں ضیا ہے تو سہی چاندنی رات میں مد مست ہوا ہے تو سہی خواہش عشق کی تکمیل کہاں ہوتی ہے گرچہ وہ شوخ نہیں شوخ‌ نما ہے تو سہی آہٹیں جاگ کے تاریخ کو دستک دیں گی آس کے سینے میں ایک زخم ہرا ہے تو سہی صبح کی راہ میں ظلمات کے سنگ آتے ہیں میں نے ہر سنگ کو ٹھوکر پہ رکھا ہے ...

    مزید پڑھیے

    آپ سے انس ہوا چاہتا ہے

    آپ سے انس ہوا چاہتا ہے پھر کوئی باب کھلا چاہتا ہے میرے احباب میں کر دو یہ خبر وہ بھی اب میرا ہوا چاہتا ہے عقل ہی کو نہیں ندرت مرغوب دل بھی انداز نیا چاہتا ہے ہم نئی دوستی کے قائل تھے کوئی دشمن کا پتہ چاہتا ہے جو کھٹکتا ہے ایک عالمؔ کو وہ بھی لوگوں کی دعا چاہتا ہے

    مزید پڑھیے

    شبنم کی طرح صبح کی آنکھوں میں پڑا ہے

    شبنم کی طرح صبح کی آنکھوں میں پڑا ہے حالات کا مارا ہے پناہوں میں پڑا ہے تھا زندگی کے ساز پہ چھیڑا ہوا نغمہ بے ربط جو ٹوٹے ہوئے سازوں میں پڑا ہے سورج کی شعاعوں سے الجھتا ہے مسلسل سایہ ہے ابھی وقت کی باہوں میں پڑا ہے تاریخ بتائے گی وہ قطرہ ہے کہ دریا آنسو ہے ابھی وقت کے قدموں میں ...

    مزید پڑھیے

    عطار کے مسکن میں یہ کیسی اداسی ہے

    عطار کے مسکن میں یہ کیسی اداسی ہے سونے کی مقابل میں ہر سمت ہی مٹی ہے تو صاحب قدرت ہے تو اپنا کرم رکھنا صحرا کی طرف مائل حالات کی کشتی ہے روشن ہے درخشاں ہے یہ دور بظاہر تو مزدور کے بس میں تو بس ریڑھ کی ہڈی ہے لمحوں کی تعاقب میں صدیوں کی دھروہر تھی افسوس کے دامن میں غربت کی یہ بستی ...

    مزید پڑھیے

    ٹھوکر سے فقیروں کی دنیا کا بکھر جانا

    ٹھوکر سے فقیروں کی دنیا کا بکھر جانا خواہش کا لرز جانا اسباب کا ڈر جانا آکاش کے ماتھے پہ جادو کا سبب یہ ہے تاروں کا چمک جانا چندا کا نکھر جانا آ تجھ کو بتا دوں میں اچھی سی غزل کیا ہے افکار کے سانچے میں لفظوں کا اتر جانا اقرار محبت کی نازک سی دلیلیں ہیں آنکھوں میں چمک آنا زلفوں ...

    مزید پڑھیے

    جب اپنا سایہ ہی دشمن ہے کیا کیا جائے

    جب اپنا سایہ ہی دشمن ہے کیا کیا جائے یہی تو ذہن کی الجھن ہے کیا کیا جائے ہیں جس کے ہاتھ میں ذرے بھی ماہ و انجم بھی اسی کے ہاتھ میں دامن ہے کیا کیا جائے اداس بام پہ موسم نے کھول دیں زلفیں کسی بیوگ میں جوگن ہے کیا کیا جائے وہ شام لطف و طرب اور چاندنی سا بدن اسی خمار میں ناگن ہے کیا ...

    مزید پڑھیے

    اے دوست تری بات سحر خیز بہت ہے

    اے دوست تری بات سحر خیز بہت ہے پر طرز تکلم ترا خوں ریز بہت ہے گم صم سا کھڑا ہے کوئی دروازۂ دل پر اس شام کا منظر تو دل آویز بہت ہے محفل میں ترے ہونے سے ہے رنگ پہ موسم احوال خاص و عام طرب خیز بہت ہے اک شخص جو الجھا ہے نئی فکر و نظر میں وہ صاحب خوش فہم ہے اور تیز بہت ہے جو بات تو کہتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3