مرے عزیزو تمہیں سناؤں وہ حال اپنا جو چل رہا ہے

مرے عزیزو تمہیں سناؤں وہ حال اپنا جو چل رہا ہے
خموشیوں کے حسین جھرمٹ میں دم ہمارا نکل رہا ہے


سبھی دلیلیں ہوئیں ہیں ناقص ہے خوں سے لت پت ہر ایک منظر
ہر ایک اعلیٰ ذہین و دانش قدم قدم پہ سنبھل رہا ہے


عجب فضاؤں کا رخ ہوا ہے زمیں کی چادر سرک چکی ہے
قدم جہاں پہ میں رکھ رہا ہوں وہیں سے لاوا نکل رہا ہے


یہ عہد حاضر کی ہے حقیقت کہ آسماں کی عنایتیں ہیں
زمیں پہ ایڑی رگڑ رہا ہوں لہوں کا چشمہ ابل رہا ہے


مجسموں کی خموش آنکھوں سے خوں ٹپکنے کی ہے علامت
مری غزل کا نفیس لہجہ بھی سخت نوحے میں ڈھل رہا ہے


یہ سوکھے پیڑوں کے زرد پتے مری تباہی پہ ہنس رہے ہیں
انہیں خبر کیا کہ رفتہ رفتہ سمے کا سورج پگھل رہا ہے


حیات کے اس معاملے کو بیان کرنا بھی ہے ضروری
جبھی سے عالمؔ سمجھ میں آیا تبھی سے چشمہ بدل رہا ہے