Adeel Shakir

عدیل شاکر

عدیل شاکر کی غزل

    اک طرف وہ فکر فردا ذہن پرچھائی ہوئی

    اک طرف وہ فکر فردا ذہن پرچھائی ہوئی اک طرف یہ زندگی یادوں کی ٹھہرائی ہوئی لاکھ کوشش کی نہ بڑھ پائیں دلوں کی رنجشیں پر کہاں رکتی ہے شیشے میں دراڑ آئی ہوئی سرد راتوں کی فضا میں گرم رکھتی ہے مجھے شال ماں کے کانپتے ہاتھوں کی پہنائی ہوئی لے اڑی ہے تیری سانسوں کی مہک شاید ہوا کیا ...

    مزید پڑھیے

    کاش ہوتی وفا زمانے میں

    کاش ہوتی وفا زمانے میں پر حقیقت کہاں فسانے میں لوگ اوقات بھول جاتے ہیں دوسروں کا مذاق اڑانے میں سوچتا ہوں کبھی کبھی یوں ہی حرج کیا تھا اسے منانے میں ہم پڑے ہیں دیار غیر میں یوں جیسے لاشیں ہوں سرد خانے میں کیا کہیں اک ادھورے قصے کو لگ گئی عمر کیوں بھلانے میں روز ہی سانس پھول ...

    مزید پڑھیے

    رکھتے تھے تصویروں سے دیوار و در آباد

    رکھتے تھے تصویروں سے دیوار و در آباد ایسے بھی کچھ شہر ہوئے ہیں مٹ مٹ کر آباد سر آباد خیالوں سے خوابوں سے نگر آباد ایک جہاں ہے باہر اپنے اک اندر آباد عشق تھا اپنی جگہ اٹل سمجھوتہ اپنی جا ایک سے دل آباد رہا اور ایک سے گھر آباد ساگر ساگر رونے والے رو کر پھر مسکائے رات رہے جو بستی ...

    مزید پڑھیے

    اک دوجے کو آئینہ دکھائیں چلو آؤ

    اک دوجے کو آئینہ دکھائیں چلو آؤ یہ آخری تکلیف اٹھائیں چلو آؤ یوں ہے کہ منافع کا تو امکاں ہی نہیں ہے نقصان کا اندازہ لگائیں چلو آؤ مدت سے کھنڈر دل کا بھی ویران پڑا ہے کچھ دیر یہیں خاک اڑائیں چلو آؤ ہیں جال تو یاروں نے بچھائے بھی پر اب کے دشمن کی چلی چال میں آئیں چلو آؤ اس تک ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک اٹھان کے لاکھوں ہیں امتحان میاں

    ہر اک اٹھان کے لاکھوں ہیں امتحان میاں پکارتا ہے پرندوں کو آسمان میاں نکلنا پڑتا ہے آخر کو اپنے اندر سے وہاں بھی ملتی نہیں مستقل امان میاں ہے کارخانہ توہم کا یہ بقول میرؔ سو جانتے ہیں یقیں کو بھی ہم گمان میاں تھا اس سے پہلے بھی کوئی مکین دل اپنا اور اس کے بعد بھی خالی نہیں مکان ...

    مزید پڑھیے