ہر اک اٹھان کے لاکھوں ہیں امتحان میاں
ہر اک اٹھان کے لاکھوں ہیں امتحان میاں
پکارتا ہے پرندوں کو آسمان میاں
نکلنا پڑتا ہے آخر کو اپنے اندر سے
وہاں بھی ملتی نہیں مستقل امان میاں
ہے کارخانہ توہم کا یہ بقول میرؔ
سو جانتے ہیں یقیں کو بھی ہم گمان میاں
تھا اس سے پہلے بھی کوئی مکین دل اپنا
اور اس کے بعد بھی خالی نہیں مکان میاں
یہ اور بات کہ جسموں کے بھی تقاضے تھے
ہم اس کی جان تھے اور وہ ہماری جان میاں
ہیں گو کہ ہم بھی ترے خیر خواہ پر شاکرؔ
یہ کب کہا کہ ہماری ہی بات مان میاں