اک طرف وہ فکر فردا ذہن پرچھائی ہوئی

اک طرف وہ فکر فردا ذہن پرچھائی ہوئی
اک طرف یہ زندگی یادوں کی ٹھہرائی ہوئی


لاکھ کوشش کی نہ بڑھ پائیں دلوں کی رنجشیں
پر کہاں رکتی ہے شیشے میں دراڑ آئی ہوئی


سرد راتوں کی فضا میں گرم رکھتی ہے مجھے
شال ماں کے کانپتے ہاتھوں کی پہنائی ہوئی


لے اڑی ہے تیری سانسوں کی مہک شاید ہوا
کیا سبب ورنہ کہ یوں پھرتی ہے اترائی ہوئی


وہ خوشی کے روز و شب ہوں یا کہ شاکرؔ غم کا دور
کیفیت وہ ہی بھلی ہے ہو جو راس آئی ہوئی