کاش ہوتی وفا زمانے میں
کاش ہوتی وفا زمانے میں
پر حقیقت کہاں فسانے میں
لوگ اوقات بھول جاتے ہیں
دوسروں کا مذاق اڑانے میں
سوچتا ہوں کبھی کبھی یوں ہی
حرج کیا تھا اسے منانے میں
ہم پڑے ہیں دیار غیر میں یوں
جیسے لاشیں ہوں سرد خانے میں
کیا کہیں اک ادھورے قصے کو
لگ گئی عمر کیوں بھلانے میں
روز ہی سانس پھول جاتی ہے
زندگانی کے ناز اٹھانے میں
حیف بھیجا گیا ہوں میں شاکرؔ
اتفاقا غلط زمانے میں