ضمیر خاک شہہ دو سرا میں روشن ہے
ضمیر خاک شہہ دو سرا میں روشن ہے
مرا خدا مرے حرف دعا میں روشن ہے
وہ آندھیاں تھیں کہ میں کب کا بجھ گیا ہوتا
چراغ ذات بھی حمد و ثنا میں روشن ہے
میں اپنی ماں کے وسیلے سے زندہ تر ٹھہروں
کہ وہ لہو مرے صبر و رضا میں روشن ہے
میں بڑھ رہا ہوں ادھر یا وہ آ رہا ہے ادھر
وہی خوشی وہی خوشبو ہوا میں روشن ہے
کہیں بھی جاؤں ستارہ سا ساتھ رہتا ہے
وہ شب چراغ جو اس کی ہوا میں روشن ہے