آہ سنبھلی کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    خضر جس سے بنے اس آب بقا سے ڈریے

    خضر جس سے بنے اس آب بقا سے ڈریے لمبی عمروں سے بزرگوں کی دعا سے ڈریے ہم قدم بن گئے اس کے تو ٹھکانہ ہی نہیں آتی جاتی ہوئی بے سمت ہوا سے ڈریے نیت جرم ہی ہے جرم کا آغاز یہاں جو نہ کی ہو اسی ناکردہ خطا سے ڈریے سانحہ رونما ہو جائے گا شق ہونے پر تیشہ کو روکئے پتھر کی انا سے ڈریے پتا پتا ...

    مزید پڑھیے

    اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے

    اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے نہ کوئی حادثہ ہونا نہ جی بہلنا ہے وہ اور ہوں گے ملا جن کو روشنی کا سفر ہمیں تو بجھتے چراغوں کے ساتھ چلنا ہے یہ ڈھلتی عمر کے رستے بہت تھکا دیں گے قدم قدم پہ نیا راستہ نکلنا ہے وداع ہو گئی کہہ کر یہ خوشبوؤں کی صدا گلاب جسموں کو اب پتھروں میں ڈھلنا ...

    مزید پڑھیے

    یہاں مکینوں سے خالی مکان رہتے ہیں

    یہاں مکینوں سے خالی مکان رہتے ہیں محبتیں نہیں رہتیں گمان رہتے ہیں خدا کرے کہ سنے تو زبان خاموشی ترے پڑوس میں کچھ بے زبان رہتے ہیں نہ کیجے تکیہ بزرگوں کی ڈھلتی چھاؤں پر کہاں سروں پہ سدا سائبان رہتے ہیں یہی جہاں ہے ہمارا جہان گمشدگی یہی نشان کہ بس بے نشان رہتے ہیں محبتیں جس ...

    مزید پڑھیے

    اب نہ وہ عشق نہ کچھ اس کی خبر باقی ہے

    اب نہ وہ عشق نہ کچھ اس کی خبر باقی ہے ہے سفر ختم اک آشوب سفر باقی ہے کوئی آیا نہ گیا برسوں سے ان راہوں میں معرکہ کیسا سر راہ گزر باقی ہے جلنے پاتا نہیں کوئی دیا کوئی جگنو طاق دل میں گئی آندھی کا اثر باقی ہے اب بھی کہلاتا ہے وہ شخص تو محبوب نظر دل دکھانے کا ابھی اس میں ہنر باقی ...

    مزید پڑھیے

    پس ساحل تماشا کیا ہے بڑھ کر دیکھ لینا تھا

    پس ساحل تماشا کیا ہے بڑھ کر دیکھ لینا تھا کہ پہلے پھینک کر دریا میں پتھر دیکھ لینا تھا مکمل جسم اک پرچھائیں میں ڈھل جاتا ہے کیسے تمہیں کھڑکی سے اپنی یہ بھی منظر دیکھ لینا تھا زمینوں پر اترتا آسماں دیکھا کبھی تم نے بلاتے وقت اس کو خاک کا گھر دیکھ لینا تھا کھلیں آنکھیں جو بعد از ...

    مزید پڑھیے

تمام