اب نہ وہ عشق نہ کچھ اس کی خبر باقی ہے

اب نہ وہ عشق نہ کچھ اس کی خبر باقی ہے
ہے سفر ختم اک آشوب سفر باقی ہے


کوئی آیا نہ گیا برسوں سے ان راہوں میں
معرکہ کیسا سر راہ گزر باقی ہے


جلنے پاتا نہیں کوئی دیا کوئی جگنو
طاق دل میں گئی آندھی کا اثر باقی ہے


اب بھی کہلاتا ہے وہ شخص تو محبوب نظر
دل دکھانے کا ابھی اس میں ہنر باقی ہے


آخری شمع تو لو بجھ گئی جل کر یارو
اس دھوئیں میں مگر امکان سحر باقی ہے


سب مراحل سے گزر بھی لئے کب کے ہم آہؔ
حبس تنہائی میں مر جانے کا ڈر باقی ہے