پس ساحل تماشا کیا ہے بڑھ کر دیکھ لینا تھا

پس ساحل تماشا کیا ہے بڑھ کر دیکھ لینا تھا
کہ پہلے پھینک کر دریا میں پتھر دیکھ لینا تھا


مکمل جسم اک پرچھائیں میں ڈھل جاتا ہے کیسے
تمہیں کھڑکی سے اپنی یہ بھی منظر دیکھ لینا تھا


زمینوں پر اترتا آسماں دیکھا کبھی تم نے
بلاتے وقت اس کو خاک کا گھر دیکھ لینا تھا


کھلیں آنکھیں جو بعد از وقت تو اب کیا تلافی ہو
سفینہ دیکھنے والو سمندر دیکھ لینا تھا


چراغ طاق نسیاں سے نہ جلتے ہو نہ بجھتے ہو
تمہیں اک دن ہوا سے بھی لپٹ کر دیکھ لینا تھا


لئے اک نافۂ آہو پھرے ہو در بدر تم آہؔ
تمہیں اس کا سراپا اپنے اندر دیکھ لینا تھا