خضر جس سے بنے اس آب بقا سے ڈریے

خضر جس سے بنے اس آب بقا سے ڈریے
لمبی عمروں سے بزرگوں کی دعا سے ڈریے


ہم قدم بن گئے اس کے تو ٹھکانہ ہی نہیں
آتی جاتی ہوئی بے سمت ہوا سے ڈریے


نیت جرم ہی ہے جرم کا آغاز یہاں
جو نہ کی ہو اسی ناکردہ خطا سے ڈریے


سانحہ رونما ہو جائے گا شق ہونے پر
تیشہ کو روکئے پتھر کی انا سے ڈریے


پتا پتا یہاں بیٹھا ہے سمیٹے خود کو
گنگناتی ہوئی اس باد صبا سے ڈریے


اور شے ہیں تو کوئی ڈرنے کی حاجت ہی نہیں
آپ بندے ہیں خدا کے تو خدا سے ڈریے


رحمتیں زحمتیں بن جاتی ہیں اکثر اے آہؔ
ہو نہ یہ سیل بلا کالی گھٹا سے ڈریے