ابو نثر(احمد حاطب صدیقی)

ابو نثر(احمد حاطب صدیقی) کے مضمون

    ادب اور صحافت میں کیا فرق ہے؟

    مشتاق احمد یوسفی کا نام عصرِ حاضر میں ادب کا بہت بڑا نام ہے اور جناب کامران خان کا شمار ملک کے نام وَر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ دونوں کی گفتگو برقی ذرائع ابلاغ پر موجود ہے۔ باری باری سن لیجیے۔ ادب اور صحافت میں اب جو فرق پیدا ہوگیا ہے، معلوم ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیے

    رسیلی زبان اورکچھ رس بھری باتیں

    ہماری قومی زبان بھی رسیلی زبان ہے۔اس میں بڑا رس ہے۔ مگر قومی زبان پر قوم کا بس نہیں۔ خود قومی زبان بھی بے بس ہوکر رہ گئی ہے۔ تعلیم اور کارِ سرکار کی زبان فرنگی زبان ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس اب یہی زبان ان کے بس میں ہے۔ گو کہ فرنگی زبان پر بھی پوری طرح بس نہیں چلتا، اُلٹا اسی نے لوگوں کو بے بس کر رکھا ہے۔ پر لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ اسی زبان کو لکھنا، پڑھنا اور بولنا ہمارے لیے بس ہے۔

    مزید پڑھیے

    انگریزی کا پوش اور ہے، اُردو کا پوش اور

    کتاب

    جس شے سے کچھ ڈھانکا جائے اسے پوشش کہتے ہیں۔ غلاف ہی کو نہیں، لباس کو بھی پوشش کہا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی نشستوں پر جو کپڑا چڑھایا جاتا ہے وہ بھی پوشش کہلاتا ہے۔ انسانی پوشش کو لکھنؤ والے پوشاک کہتے ہیں۔ ہم بھی کہنے لگے ہیں۔ نوراللغات کے مطابق پوشش کا لفظ غیر ذی روح یا حیوانِ مطلق کے لباس کے لیے مخصوص ہے۔ مگر دلّی کے مرزا غالبؔ نے حضورِ شاہ جو درخواست، اپنی تنخواہ بڑھانے کو بھیجی تھی اُس میں خود اپنے لیے بھی پوشش ہی کی حاجت ظاہر فرمائی تھی: " کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش ؛ جسم رکھتا ہوں،ہے اگرچہ نزار "

    مزید پڑھیے

    مغرب والوں کی چال میں آ کر ہم اپنی عظمت کی داستانوں کو نفرت آمیز کیوں سمجھ رہے ہیں؟

    کتاب

             اب سوال یہ ہے  کہ ظلم وستم، جوروجبر، زور،زبردستی، تعذیب و تشدد، درندگی وبہیمیت، وحشت وسنگ دلی اور جنگلی پن یاحیوانیت جیسے بامعنی الفاظ کی بکثرت موجودگی میں آپ کو کیا مار آئی ہوئی ہے کہ کسی کے جال میں پھنس کر، کسی کی چال میں آ کر بربروں کو بدنام کرتے پھریں؟

    مزید پڑھیے

    لسانی لطیفے کیوں سرزد ہوتے ہیں؟

    ادبی محفل سجی ہوئی تھی۔یکایک اُردو کے ایک گراں قدراور’گزٹیڈ‘ استاد اُٹھے اور گرج گرج کر اقبال کی نظم ’شکوہ‘ سنانے لگے۔ ابھی پہلا ہی مصرع پڑھاتھا کہ ہم نے سر پیٹ لیا۔ حالانکہ موقع ’سرپیٹ دینے‘ کا تھا۔ مصرع انھوں نے کچھ اس طرح پڑھا: کیوں زیاں کار بنوں ”سُودے فراموش“ رہوں

    مزید پڑھیے

    اردو زبان یا کسی بھی معاملے میں ، درست کو غلط کرنے کی بجائے غلط کو درست کیجیے

    اکثر لکھاری صاحبان اس شعر کو لاوارث جان کر کبھی مولانا حالیؔ سے منسوب کردیتے ہیں، کبھی علامہ اقبالؔ سے۔ حالاں کہ یہ شعر مولانا ظفرؔ علی خان کے شعری مجموعے ’’بہارستان‘‘ میں شامل ہے، اور یہ مجموعہ 1937ء میں شائع ہوا تھا، جب اقبال ؔابھی بقیدِ حیات تھے۔ شعر کا مرکزی خیال قرآنِ مجید سے ماخوذ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے علما فضلا اس آیت کو مثبت تبدیلی کی شرط کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس آیت کا حوالہ دے کرکہتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنی خراب حالی کو خود نہ بدلنا چاہے تو اللہ بھی اس قوم کی بُری ح

    مزید پڑھیے

    اردو زبان ، تہذیب اور مطالعہ کا ذوق

    کتب

    خوش تھے کہ انتظامیہ انھیں ۰۵۱ روپے اضافی بھی ادا کرتی ہے۔ مزید فرمایا:  ” جناب! میں کپڑے جوتے خریدنے کے بجائے سارے پیسے جمع کر کے کتابیں خرید لیتا ہوں۔لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنی کتابیں پڑھ پڑھ کرتم اور پاگل ہو جاؤ گے“۔

    مزید پڑھیے

    صحافت سے وابستہ افراد اردو سے بیزار کیوں ہیں؟

    کتب

    ’’ایک مشاعرے کے بعد ایک نوجوان میرے پاس آیا۔ اُس نے میرے بعض اشعار کی ایسی عمدہ فنی تعریف کی کہ میں اُس کی سمجھ بوجھ اور قابلیت سے بہت متاثر ہوا۔ جب وہ رخصت ہونے لگا تو میں نے اُس سے پوچھا: ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میرا سوال سن کر نوجوان مُسکرایا اور بولا: ’’نام تو میرا بھی احسان ہی ہے، لیکن میں ’بن دانش‘ نہیں ہوں‘‘۔

    مزید پڑھیے

    جب اردو میں بولنے والے ہی اردو بولنا بھول جائیں

    اردو

    جبکہ’کتابچہ‘ کو ایک ہی خبر میں کئی بار کُتّابچّہ پڑھنے کا لطیفہ ایک بہت بڑے برقی ذریعۂ ابلاغ کے قو خبرنامے میں رُونما ہوا، جس کا بصریہ آپ ’یوٹیوب‘ پر آج بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ انگریزی، جرمن، فرانسیسی، عربی، فارسی یا روسی زبان میں ابلاغ کا فریضہ ایسے شخص کو سونپ دیا جائے جسے ان زبانوں کے قواعد سے واقفیت ہی نہ ہو۔ یہ تماشا صرف ہمارے ذرائع ابلاغ میں نٹوں کے تماشے کی طرح دکھایا جاتا ہے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ اس پر شرماتے بھی نہیں، اورمزید بے شرمی یہ کہ ان اداروں کی نظر می

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3