ابو نثر(احمد حاطب صدیقی)

ابو نثر(احمد حاطب صدیقی) کے مضمون

    تعقید لفظی ، نیمہ اور فرش

    اردو

    ف پر زبر ہو اور ’ر‘ پر تشدید، تو ’فَرّاش‘ کے بہت سے ایسے معانی پیدا ہوجاتے ہیں، جن کی خاطر ہم الفاظ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص ہے جو شفاخانوں میں، دفاتر میں، یا دیگر عوامی مقامات (ہوائی اڈّوں وغیرہ) پر صرف فرش چمکانے پر مامور ہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد آتا ہے اور فرش پر پُچارا پھیر کر چلا جاتا ہے۔ آپ اس کو خواہ کتنے ہی جدید انگریزی ناموں سے پکارلیں مگر اس کے لیے ’فَرّاش‘ سے بہتر کوئی لفظ آپ کو نہیں ملے گا۔

    مزید پڑھیے

    عظیم استاد ، مدیر ،زبان دان اور صحافی کی یاد میں

    اردو

    3 مئی، 1979ء کو فدوی کی خالہ محترمہ کی دُختر نیک اختر کی شادی ہے۔ اس شادی میں شرکت کے لیے عارض کو ایک ماہ کی رُخصت استحقاقی مرحمت فرمائی جاوے۔ عین نوازش ہوگی"۔ درخواست پڑھ کر ایگزیکٹو ایڈیٹر صاحب کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اُنہوں نے درخواست گزار کو فی الفور اپنے دفتر میں طلب فرما لیا اور درخواست سامنے رکھ کر اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں باز پُرس فرمائی: "کیوں میاں صاحبزادے! اپنی خالہ محترمہ کی دُختر نیک اختر کی شادی میں ایک مہینے تک آپ کیا کردار ادا فرماویں گے؟

    مزید پڑھیے

    زبان و ادب ، کچھ تاکنے جھانکنے کی میں

    اردو

    معلوم ہوا کہ اہلِ لغت بھی جھانکی مارتے پھر رہے ہیں۔ نوراللغات کی رُو سے اس کا مطلب ہے: دید، نظاره ، تماشا۔ فرہنگِ تلفظ (مرتبہ شان الحق حقی) کے مطابق ’جھانکی‘ کا ایک مطلب ’موکھا‘ یا ’روزن‘ بھی ہے، یعنی وہ سُوراخ جہاں سے جھانکی ماری جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فصیل کے کنگروں کے درمیان کی درزیں بھی ’جھانکی‘کہلاتی ہیں۔ جلوہ گاہ (یعنی جھروکے) کو بھی ’جھانکی‘ کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیے

    تہذیب سیکھنا مقصود ہو تو اردو سیکھ لیجیے

    اخلاق

    مغرب کی بد تہذیبیوں میں سے ایک بدتمیزی اور ہمارے برقی ذرائع ابلاغ میں در آئی ہے۔ انگریزی زبان میں ’آپ، تم اور تُو‘ کا فرق تو ہے نہیں، You کی لاٹھی سے سب کو ہانکا جاتا ہے۔ وہاں القاب و آداب کے بغیر نام لے کرپکارنا بے تکلفی کا اظہارہے۔ اگر پیارسے پُکارنے کا نام معلوم ہو جائے تو کیا کہنے۔ معلوم نہ ہو تب بھی ایلزبتھ کو لزی اور جیکب کو جیکی پکارنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس عمل کی نقالی نے اردو زبان کی تہذیب، ادب آداب اور رکھ رکھاؤ کو متاثر کیا ہے۔

    مزید پڑھیے

    اردو زبان کیا بھولے ، اردو کے ہندسے ، گنتی اور اعداد بھول بیٹھے

    گنتی سے بننے والے محاوروں کی گنتی کرنا آسان نہیں۔صرف عدد ’ایک‘ سے بننے والے چند محاوروں پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ’ایک آنچ کی کسر رہ جانا‘یعنی ذرا سانقص یا کمی باقی رہ جانا۔’ ایک آنکھ سے دیکھنا‘یعنی سب کو یکساں سمجھنا، اپنے پرائے کا فرق نہ کرنا، انصاف پسند ہونا۔’ ایک آنکھ نہ بھانا‘ یعنی بالکل ہی پسند نہ آنا۔’ ایک انڈا وہ بھی گندا‘ یہ محاورہ بالعموم ایک ہی بیٹا اور وہ بھی نالائق ہونے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، یا ایک ہی چیز میسر ہو اور وہ بھی ناکارہ۔’ ایک اور ایک گیارہ‘یا ’ ایک سے دو بھلے‘

    مزید پڑھیے

    اردو زبان کا حق ہے کہ اس کے تحفظ اور فروغ کو آگے آیا جائے

    اردو

    انگریزی الفاظ کا غلبہ شاید قبول کرلیا جاتا، مگر مسلمانانِ پاکستان اپنی زبان کو قرآن و حدیث سے قریب رکھنا چاہتے ہیں، کہ ہمارے بچے جب قرآنِ مجید کی تلاوت کریں یا کسی حدیثِ مبارکہ کے اصل الفاظ پڑھیں تو اجنبیت محسوس نہ کریں۔ سورۃ الفاتحہ کے تقریباً تمام الفاظ ہمارے اُردو روزمرہ کا حصہ ہیں۔

    مزید پڑھیے

    اپنی کم علی کو اردو زبان کی کم مائیگی پر متہم مت کیجیے

    اردو

    اُردو کا ذخیرۂ الفاظ اُن کے دامن میں سما نہیں سکا۔ سو، اپنی تنگ دامنی کو انھوں نے اُردو ہی کی تنگ دامانی قرار دے ڈالا۔ کہتے ہیں کہ معاصر علوم کی تعلیم اُردو میں دی ہی نہیں جا سکتی۔ دلیل یہ ہے کہ اُردوکے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ جدید علوم کا احاطہ کرپائے۔ صاحبو! یہ دعویٰ کرے تو وہ کرے جسے اُردو زبان پر عبور ہونے کا بھی دعویٰ ہو۔ ماں باپ یا ماموں سے سن کر اُردو بول لینے اور لکھ لینے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اُردو پر عبور ہوگیا۔

    مزید پڑھیے

    اپنی زبان کو فخر سے گلے لگانے والے ہی آگے بڑھ پاتے ہیں

    اردو

    جو تیز رَو ہوتے ہیں، وہ پیش رَو ہوتے ہیں۔ ہم تو صرف پَیرو ہیں۔ پیروی کرنے میں طاق۔ نقّالی میں یکتا۔ ہر شعبے میں ’نقلی مال‘ بنانے کے ماہر۔ دنیا بھر میں ہمیں ’نقّال درجۂ اوّل‘ مانا جاتا ہے۔ جس شعبے میں بھی دیکھیے ہم فقط نقّالی ہی کررہے ہیں… تعلیمات میں، ابلاغیات میں اور طرزِ حیات میں۔ لیکن نقال کتنے ہی اچھے نقال کیوں نہ ہوجائیں، رہیں گے نقَّال کے نقَّال۔ ’نقل‘ کو کبھی ’اصل‘ کا مقام نہیں ملتا۔ سو ہمیں اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے اپنی اصلیت سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔

    مزید پڑھیے

    اپنی زبان اور اردو زبان کو بگڑنے نہ دیجیے

    اردو

    قصہ مختصر یہ کہ اگر آپ اُردو میں صحافت کرنا چاہتے ہیں تو اُردو ہی کے الفاظ کو اُردو سے بے دخل کردینے پر کیوں تُل گئے ہیں؟ اُردو کے قارئین اور ناظرین کے سروں پر نامانوس انگریزی الفاظ کی بمباری کی مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ ’بمباری‘ پر یاد آیا کہ جن انگریزی الفاظ کو اُردو نے اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیا ہے، یا جن انگریزی الفاظ کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے مثلاً ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی وژن اور جج وغیرہ اُن سے تعارُض نہیں۔ اسی طرح اسمائے معرفہ کا بھی ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ فیس بک کو ’کتاب چہرہ‘ اور ٹوئیٹر کو

    مزید پڑھیے

    مجھے نام نہ آئے رکھنا

    ، صاحبو! نام رکھنا بھی ایک ہنر ہے۔ انورؔمسعود کہتے ہیں: کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3