ایک منظر ہے مگر بے ربط پس منظر میں ہے

ناک میں دم ہوگیالفظِ دَم کے معانی دیکھ کر۔ بندہ دَم بخود ہے کہ اِس دو حرفی لفظ میں آخر کتنا دم ہے  جو اتنے مفاہیم کا بوجھ اُٹھائے کھڑا ہے:  خون، جان، رُوح، زندگی،طاقت، سانس، نفس، پھونک،لمحہ، وقت، خنجر کی دھار،دھوئیں کاکش اور کسی پکوان کو دھیمی دھیمی آنچ پر رکھ چھوڑنا وغیرہ۔

 

دَم کے معانی لکھتے لکھتے ہم آپ ہی بے دَم ہو ئے، ورنہ ابھی بہت سے معانی باقی ہیں۔ ’ناک میں دَم کرنا‘توبظاہر ناک  میں جان اٹکا دینا ہے۔ مگر مفہوم اس کا تنگ کرنا، ستانا، زچ کردینا یا  دِق کردینا ہے۔ پنجابی زبان میں ’نکونک  کر دینا‘۔ سو،جب تک دم میں دم ہے، لوگ ناک میں دم کرتے رہیں گے۔

مگر اے صاحبو! ایک صاحب ایسے بھی ہیں جنھوں نے اِس عاجز کے ’کان میں دم‘ کر رکھا ہے۔ جمعے کا دن آتے ہی’فونم فون‘ کرڈالتے  ہیں۔ کالم پڑھ کر اتنے سوالات کر تے ہیں کہ بندہ لاجواب ہو جائے۔نام اُن کا منظور الٰہی ہے۔ نام سنا تو یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ شایداِلٰہ العالمین کو یہی منظور ہے کہ ہمیں کالم لکھنے کی سزا اِسی دنیا میں مل جائے۔ جناب منظور الٰہی کھوسہ کا تعلق صوبہ سندھ کے ایک قصبے کشمور سے ہے۔ جو ہے توسندھ میں مگرسندھ، پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر۔ منظورصاحب کا لہجہ اتنا مٹھاس بھراہے کہ میٹھے کی زیادتی سے سماعت کو ذیابیطس لاحق ہوجانے کا ڈر  رہتا ہے۔عمر 24  سال ہے۔ انٹر پاس کر چکے ہیں۔ پڑھاکُو ایسے ہیں کہ انھوں نے وہ کتابیں بھی پڑھ ڈالی ہیں جنھیں پڑھنے سے ہم اب تک بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ آج کل ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب ”پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ“ اُن کے زیر مطالعہ ہے۔کھوسہ صاحب کا مشغلہ ہی کتابیں خریدنا اور پڑھ ڈالنا ہے۔ پڑھ پڑھ کر پاگل ہو جانے کی اُمید بھی لگائے بیٹھے ہیں۔ اب تک ہوئے تو نہیں، البتہ کیے دیتے ہیں۔

گل نوخیز اختر، جاوید چودھری، محمد اظہار الحق،  عطا الحق قاسمی اور رضا علی عابدی سمیت نہ جانے کتنے کالم نگاروں کے کالم پابندی سے پڑھتے ہیں۔ اردو الفاظ کے معانی، مفاہیم اور محلِ استعمال جاننے سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اتنی گہری کہ بعض گہرائیوں میں غوطہ مارنے کے خیال ہی سے ہم گھگھیاجاتے ہیں۔ قومی زبان اُردو سے محبت رکھنے والے جناب منظور الٰہی کھوسہ کا اتنا تفصیلی ذکر، ان کالموں کے مزاج سے ہٹ کر،صرف اس غرض سے کیا ہے کہ بقولِ حفیظؔ جالندھری:

وہ بات کہہ دوں جو پتھروں کے جگر کو بھی آب آب کر دے

  صوبہ سندھ کے ایک دُور افتادہ قصبے کشمور کا یہ انٹر پاس نوجوان دنیائے علم و ادب کی خاک چھاننے کے لیے خاکروبی کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ منظور الٰہی کھوسہ صاحب کشمور کے ایک نجی شفاخانے میں جھاڑو پونچھا کرنے اوراستعمال شدہ طبی مواد کو ٹھکانے لگانے پر مامور ہیں۔ کہتے ہیں:”میں فرّاش ہوں“(یہ بات ہمارا فرّاش والا کالم پڑھ کر بتائی تھی)خوش تھے کہ انتظامیہ انھیں ۰۵۱ روپے اضافی بھی ادا کرتی ہے۔ مزید فرمایا:

 ” جناب! میں کپڑے جوتے خریدنے کے بجائے سارے پیسے جمع کر کے کتابیں خرید لیتا ہوں۔لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنی کتابیں پڑھ پڑھ کرتم اور پاگل ہو جاؤ گے“۔

 اب ہم ان سے کیا کہتے سوائے اس کے کہ خاورؔ رضوی کے ایک شعر میں ترمیم کر کے کہیں کہ اے عزیز!

اِس زمانے میں ’تری‘ سادہ دِلی، ’تیرا‘ خلوص

ایک منظر ہے مگر بے ربط پس منظر میں ہے

  کتابیں مہنگی ہو گئی ہیں۔ اِ ن دنوں کلیاتِ اقبال خریدنے کے لیے رقم جمع کر رہے ہیں۔جو لوگ شاکی ہیں کہ کتابیں کوئی نہیں پڑھتا، وہ اپنی کتابیں اس نوجوان کو ہدیتاً ارسال کر دیں۔ ان شاء اللہ سب پڑھ ڈالے گا۔منظور الٰہی کھوسہ کو روپے پیسے کی ہوس نہیں۔ وہ صرف کتابوں کا بھوکا اور علم کا پیاسا ہے۔ جو مخیر افراد اور مصنّفین اسے کتابیں بھیج سکتے ہیں ضرور بھیجیں۔ منظور صاحب کا پتا اُن کی اجازت سے آپ کی خدمت میں پیش ہے: منظور الٰہی کھوسہ۔ سُوئی روڈ۔دیہہ لین پرانی۔ڈاک خانہ کشمور۔ سندھ۔ فون: +923482552575

 گلستانِ جوہر، کراچی سے جناب عمار خان نے توجہ دلائی ہے:

 ” بہت عرصے سے سیاست دان ایک لا علمی کا مسلسل مظاہرہ کر رہے ہیں۔پرویز اشرف، نوازشریف، شہباز شریف اور نہ جانے کس کس کے منہ سے سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ایک دوسرے کو توچور کہتے ہی ہیں، علی بابا کو بھی چور بنا ڈالا۔ بلکہ علی بابا کو چالیس چوروں کا سردار سمجھ رہے ہیں۔کیا ان لوگوں نے اپنے بچپن میں یہ کہانی نہیں پڑھی؟ علی بابا تو ہیرو تھا۔ اس نے چالیس چوروں اوراُن کے سردار کا خاتمہ کیا تھا“۔

 جی، درست فرمایا۔ علی بابا کا تعلق چوراشرافیہ سے نہیں، عوام سے تھا۔بے چارہ  ایک غریب لکڑ ہارا تھا۔مگرہماری اشرافیہ نے شاید ’الف لیلہ و لیلہ‘کی مشہور کہانی ”علی بابا چالیس چور“ کا محض عنوان ہی کسی سے سن کر علی بابا کو بھی  اپنے جیسا  تصور کر لیا۔

  یہاں اپنے ’بابا لوگ‘ کو  ہم بتا تے چلیں کہ جو لوگ ان کہانیوں کو ’اَلِف لیلہ‘ کہتے ہیں، غلط کہتے ہیں۔ ان عربی کہانیوں کا اصل نام ’اَلْف لیلہ و لیلہ‘ ہے۔اَلْف کے ’ل‘ پر زیر نہیں، جزم ہے۔اَلْف کا مطلب ہے ’ہزار‘۔ ’اَلْف لیلہ و لیلہ‘ کا مطلب ہوا ایک ہزار ایک راتیں۔ ان کہانیوں کو آٹھویں صدی عیسوی کے عرب ادیبوں نے تصنیف کیا۔ بعد میں مختلف ممالک کے قصہ گوافراد نے اس میں اضافے کیے۔ ہے تو یہ ایک ہی کہانی، مگر اس میں سے ایک ہزار ایک کہانیاں نکل آئیں۔ کہتے ہیں کہ سمرقند کابادشاہ شہر یار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے اتنا دل برداشتہ ہواکہ اُسے عورت ذات ہی سے نفرت ہوگئی۔ سو،اُس نے اپنا مشغلہ بنا لیا کہ ہر روز ایک نئی شادی کرتا اوردُلھن کو رات بھر رکھ کر صبح قتل کر دیتا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ عورتوں کی تعداد کم پڑنے لگی۔اُس کے وزیر نے سمجھایا”جہاں پناہ! یہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ اب کوئی عورت راضی نہیں ہوتی“۔ بادشاہ نے کہا’’تم خود اس کا بندو بست کرو، ورنہ تمھیں بھی قتل کر دیا جائے گا“۔ وزیر پریشان رہنے لگا۔ آخر وزیر کی لڑکی شہر زاد نے اپنے باپ اور اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا فیصلہ کیا۔ باپ کو بمشکل راضی کرکے بادشاہ سے شادی کر لی۔ شہریار قصے کہانیوں کا شوقین تھا۔شہرزاد نے شبِ عروسی بادشاہ کو کہانی سنانا شروع کیا۔ رات ختم ہو گئی، کہانی نہ ختم ہوئی۔ مگر کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ بادشاہ نے باقی حصہ سننے کے تجسّس میں اُس صبح وزیر زادی کا قتل ملتوی کر دیا۔ دوسری رات اُس نے وہ کہانی ختم کرکے نئی کہانی شروع کر دی۔ جب نئی کہانی عروج پر پہنچی تو پھر ’باقی کل‘کہہ دیا۔ ایک ہزار ایک راتوں تک وہ بادشاہ کو کہانی ہی سناتی رہی۔یوں اُس نے اپنی جان اور عزت و آبرو تقریباً پونے تین سال تک بچائے رکھی۔بالآخر شہرزاد سے بادشاہ کے دو بچے ہوئے اور عورتوں کی وفاداری پر جو آنچ آئی تھی وہ بھی مدّھم ہو گئی۔

  اب رہا بھائی عمار خان کا یہ سوال کہ”کیا ان لوگوں نے اپنے بچپن میں یہ کہانی نہیں پڑھی؟“ تو عرض ہے کہ انھوں نے خود کچھ نہیں پڑھا،سب کچھ انھیں پڑھایا گیا ہے۔آپ سیاسی جلسوں اور ذرائع ابلاغ کے ملاکھڑوں میں دیکھتے ہی ہوں گے کہ یہ اشرافیہ ہماری بنیادی اخلاقیات سے بھی بے بہرہ اوردین کی ابتدائی تعلیمات سے بھی نابلد ہے۔ یہ تو سورۃ  اخلاص کی تلاوت بھی درست نہیں کرسکتے۔یہ اس ملک کی مخلوق نہیں، یہ خلائی مخلوق ہیں۔ کہیں اور سے پڑھ پڑھا کر یہاں آگئے ہیں۔ پس اے صاحبو! ہماری سیاسی بازی گاہ کی ہر پُتلی بھی:

ایک منظر ہے مگر بے ربط پس منظر میں ہے