اشک الم ہے سوزش پنہاں لئے ہوئے
اشک الم ہے سوزش پنہاں لئے ہوئے
قطرہ ہے اپنے ظرف میں طوفاں لئے ہوئے
پیدا کریں گے عشق سے ہم خود علاج عشق
بیٹھے رہیں وہ درد کا درماں لئے ہوئے
ہے تیری بخششوں کا یقیں بے گماں مگر
ہم ہیں ملال تنگئ داماں لئے ہوئے
عشرت کی وادیوں سے گزرتا چلا گیا
پیہم فریب عمر گریزاں لئے ہوئے
وہ پیکر حجاب یہاں آئے کس طرح
ہم ہیں ہجوم حسرت و ارماں لیے ہوئے
یہ کون آ رہا ہے سر شام اے سحرؔ
چہرے پہ نور صبح بہاراں لئے ہوئے