اشک آنکھوں سے دم ضبط رواں ہوتا ہے

اشک آنکھوں سے دم ضبط رواں ہوتا ہے
جب کوئی درد حقیقت کی زباں ہوتا ہے


خون رستا ہے تو آتی ہے گل سرخ کی یاد
زخم دیکھیں تو بہاروں کا گماں ہوتا ہے


ہم نے اسلاف کے کردار کیے ہیں زندہ
ورنہ تاریخ کو احساس کہاں ہوتا ہے


ہر قدم غم کی صلیبوں سے گزرنا ہوگا
مرحلہ درد کا آسان کہاں ہوتا ہے


عشق احساس کم و بیش کا پابند نہیں
جب ہوس ہو تو غم سود و زیاں ہوتا ہے


عرصۂ دہر میں انساں کی حقیقت معلوم
ایک تنکا جو سر آب رواں ہوتا ہے


سبزہ پامال گل افسردہ چمن پژمردہ
کیوں بہ ایں شکل بہاروں کا گماں ہوتا ہے


منظر درد نے احساس نہ رکھا باقی
دیکھ لیتے ہیں مگر ہوش کہاں ہوتا ہے


آپ کی ذرہ نوازی ہے جو اس قابل ہوں
ورنہ شاعر میں کوئی وصف کہاں ہوتا


غم جو بخشا ہے مجھے تو نے غزل کی صورت
خون پی پی کے شب و روز جواں ہوتا ہے


فصل گل میں دل وحشی کا چلن مت پوچھو
ایسے موسم میں تو یہ آفت جاں ہوتا ہے


کون انجمؔ کے مقابل ہے سر بزم سخن
منفرد آپ کا انداز بیاں ہوتا ہے