اصحاب گریہ

پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے


حسین آباد سارا
تعزیہ داروں کی بستی تھی
محرم کے دنوں میں شام ہوتے ہی
حسین آباد کے مرد و زن کالے لباسوں میں
عزا خانوں کے دالانوں میں
شب بھر مرثیہ پڑھتے
صف ماتم بچھاتے اور اپنی چھاتیوں کو لال کر لیتے
نویں کی شب وہ سب اپنے گھروں سے آگ لاتے
اور دہکتی آگ کی چاروں طرف اینٹیں بچھا دیتے
ہزاروں آنکھیں مشتاقانہ اک جانب کو اٹھ جاتیں
فضا میں گونج سی ہوتی
کوئی نعرہ لگاتا اور حسین ابن علی کا نام لے کر
آگ کی اینٹوں پہ یوں چلتا ہوا آتا
کہ جیسے فرش گل ہو یا کوئی سبزے کی چادر ہو
وہ پھر نعرہ لگاتا دوڑتا بجلی کی تیزی سے
مقدس آیتوں والا علم ہاتھوں میں لے لیتا
کمر سے اپنی کس لیتا
ہزاروں لوگ اس کے گرد حلقہ باندھ لیتے
اور اسے کشف و کرامت کا خزینہ جان کر
اپنے دلوں کا مدعا کہتے
وہ پیہم آگ کی اینٹوں پہ یوں ہی ناچتا رہتا
مرادوں منتوں کا ماجرا سنتا
مگر جب آگ کی اینٹوں کی سرخی ماند ہو جاتی
تو سارے لوگ حلقہ توڑ دیتے اور مقدس آیتوں والا علم
اس شخص کے ہاتھوں سے لے لیتے
عزا خانوں کے دالانوں میں واپس لوٹ کر آتے
صف ماتم بچھاتے
اور اپنی چھاتیوں کو لال کر لیتے