ہاتھ سے بنے مٹی کے برتن

میں مٹی،  میری ذات مٹی ،مٹی میر ا کھانا
مٹی دا میں پتلا سائیاں مٹی وچ مل جاناں

 

Sometime between 6,000 and 4,000 BC, the first potter’s wheel was invented

مٹی کے برتنوں کا استعمال کئی ہزاروں سالوں سے جاری ہے۔یہ صنعت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انسان کی محکومیت ہوا،آگ،پانی   اور مٹی پر نئی نہیں ہے۔انسان ترقی کی دور میں چاہے کتنا ہی آگے کیوں نہ نکل جائے کتنے ہی تیر کیوں نہ مار لے لیکن قدرت سے اس کا ناطہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔مٹی کے برتنوں کا استعمال زمانہ قدیم سے جاری ہے حالانکہ اب اس کی جگہ زیادہ مضبوط اور دیر پا چلنے والے پلاسٹک،تانبہ اور دوسرے مختلف چیزوں نے لے لی ہے۔ مٹی کے برتنوں کی ایک بہت گہری سائنس اور تاریخ ہے جو اس صنف کو ایک مختلف جلا بخشتی ہے۔

مٹی کے برتنوں کی ایجاد دنیا کے سب سے قدیم ایجادات میں سے ایک ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق دس ہزار سال قدیم ایجاد ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت آتی رہی۔ خام مٹی اور سرامک کو تیز گرمی میں تپا کر اسے مرضی کی شکل میں ڈھالنے کا عمل ہزاروں سالوں سے چلا آرہا ہے۔  ایسا کہا جاتا ہے کہ مٹی کے برتنوں کو مختلف جگہوں پر انفردی  طور پر دریافت کیا گیا، اور اسے تیز آگ پر گوندھی ہوئی مٹی کو رکھ کر  کوائلنگ کے ذریعے بنائی گئیں، جو سیکھنے کے لیے ایک سادہ اور عام سی کاریگری  ہے۔

آج تک کی سب سے قدیم ملنے والی مٹی کی بنی مورت سب سے قدیم معلوم مٹی کے برتن چیک جمہوریہ سے ہیں اور یہ 28,000 قبل مسیح تک کے دور کی بتائی جاتی ہے، آئس ایج  کے عروج کے دور کی جب دنیا زراعت سے بھی وابستہ نہ تھی۔ دنیا کا سب سے پہلا پوٹرز ویل (potter’s wheel) وہ مشین جس کے ذریعے  مٹی کے برتنوں کو شکل دی جاتی ہے سب سے پہلے Mesopotamia میں بنایا گیا  جو آج کے زمانہ میں عراق،کویت اور ترکی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کمہار کا پہیہ  یا پوٹرز ویل (potter’s wheel) میسوپوٹیمیا میں 6,000 اور 4,000 قبل مسیح (عبید دور) کے درمیان  ایجاد ہوا تھا اور مٹی کے برتنوں کی پیداوار میں انقلاب برپا ہوا تھا۔

مٹی کے برتنوں کا ذکر ہو اور چائنا کی بات نہ کی جائے کیسے ممکن ہے۔ 19000 سے 20000 سال قبل چائنا میں ان ہاتھوں سے بنائے مٹی کے برتنوں کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔کسی بھی جگہ پر پائے جانے والی مٹی کی اقسام وہاں استعمال ہونے والی چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے جیسے چائنا قدرتی امختلف مٹی کے زخائر سے مالا مال ہے یہی وجہ ہےکہ ایہاں مٹی سے بننے والے برتنوں کی صنعت بہت پرانی اور بہترین تصور کی جاتی ہے۔

جاپان میں، Jōmon  کے دور میں Jōmon مٹی کے برتنوں کی ترقی کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی خصوصیت مٹی کے برتنوں کی سطح پر رسی کے نقوش سے ہوتی ہے جسے گولی چلانے سے پہلے مٹی میں رسی دبانے سے بنایا جاتا ہے۔ چین میں پندرہویں صدی قبل مسیح میں چمکدار پتھر کے برتن بنائے جا رہے تھے۔ چینی چینی مٹی کے برتن کی ایک شکل تانگ خاندان (AD 618-906) کے بعد سے ایک اہم چینی برآمد بن گئی۔ کوریائی کمہاروں نے چودہویں صدی عیسوی کے اوائل میں چینی مٹی کے برتن کو اپنایا۔ جاپانی چینی مٹی کے برتن کو سولہویں صدی کے اوائل میں اس وقت بنایا گیا جب شونزوئی گوراڈویو گو نے اس کی تیاری کا راز Jingdezhen میں چینی بھٹوں سے حاصل کیا اور اسے عمل میں لاکر مٹی کے برتنوں کی ایجاد شروع کی۔

مٹی کے برتن عام طور پر تین اقسام کے ہوتے ہیں:

  • ارتھن وئیر
  • اسٹون وئیر
  • پروکلین

ارتھن وئیر:

ارتھن وئیر مٹی کی وہ قسم ہے جس میں نسبتاًکم درجہ حرارت پر چکنی مٹی سے برتن تیار کیے جاتے تھے اور اور یہ تزین و آرائش سے پاک سادہ برتن ہوا کرتے تھے۔ان برتنوں کو عموما 600سے 1200 ڈگری درجہ حرارت پر تیار کیا جاتا تھا۔ان برتن کی جڑیں نیو لیتھک زمانے سے جوڑی جاتی ہیں۔

اسٹون وئیر:

اسٹون وئیر برتنوں کو 1100 سے 1200 ڈگری درجہ حرارت پر تیار کیا جاتا تھا ۔یہ برتن ارتھن وئیر برتنوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور دیر پا استعمال کے لائق سمجھے جاتے ہیں۔چینی قوم جنھوں نے اس کی ایجاد سب سے پہلے کی تھی جس کی وجہ چین میں پائی جانے والی مٹی کی بہترین اقسام بھی ہے۔

پروکلین:

پروکلین نامی مٹی کے برتنوں کی یہ قسم چینی مٹی کے برتن کو گرم کرنے والے مواد سے تیار کی جاتی ہے، جس میں عام طور پر کاولن بھی شامل کی جاتی  ہے، اسے تیار کرنے کے لیے بھٹی کو ۱۲۰۰ سے ۱۴۰۰ ڈگری درجہ حرارت تک گرم کی کیا جاتا ہے۔ یہ دوسری اقسام کے برتنوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اور ان درجہ حرارت کو حاصل کرنا ایک طویل جدوجہد اور مشکل عمل تھا۔

کسی بھی ثقافت کو بہتر جاننے اور تفصیلی طور پر سمجھنے کے لیے اس خطے سے حاصل ہونے والی چیزیں معاون ثابت ہوتی ہیں اور اس طرح ہم وہاں رہنے والے لوگوں کے بارے میں بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

مٹی کے برتنوں کا استعمال پاکستان میں بھی کثرت سے کیا جاتا ہے۔

مٹی کے برتن اور پاکستان :

مٹی کے برتنوں کا استعمال پاکستان میں کثرت سے دیکھا جاسکتا ہے۔پاکستان کے مختلف شہروں مثلاًکراچی،حیدرآباد، ملتان اور راولپنڈی وغیرہ میں بھی اس صنعت کو بڑھتے اور کام کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔پاکستان کے دیہاتی علاقوں  میں مٹی کے برتنوں کا استعمال اب بھی  عام زندگی میں ملتا سے ہوتا ہے۔مٹی کے برتنوں کی بات ہو اور ہالا کا ذکر نہ ہو نہ ممکن ہے۔سندھ کے ضلع مٹیاری کا ایک چھوٹا سا شہر ہالہ بھی اپنی ہزاروں سالوں پرانی ثقافت کے لیے مشہور ہے۔پاکستان میں، صوبہ سندھ میں مٹی کے برتن بہت مشہور ہیں۔ ہالہ نام کا ایک گاؤں ہے جو قدیم کاریگروں کا گھر ہے جسے ’کاشیگر‘ کہا جاتا ہے جو مختلف اشکال کے برتن اور ٹائلیں، مٹی کے برتن اور چمکدار سیرامکس بنانے کے لیے مشہور ہے۔ ہالہ کے برتنوں کو نہ صرف پاکستان میں پسند کیا جاتا ہے بلکہ یورپ اور مشرق وسطیٰ کو بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ جہاں تک سجاوٹ کا تعلق ہے کاشیگر مٹی کے برتنوں کو متحرک دستخطی رنگوں سے پینٹ کرتے ہیں جو کہ بھورے، سفید، سرسوں، فیروزی، کوبالٹ نیلے اور جامنی ہیں۔ نسل در نسل مٹی کے برتن بنانے کا کلچر ہالہ کے لوگوں کے خون میں شامل ہے۔ آرٹ ورک کے مختلف نمونے تیار کیے جاتے ہیں جن میں مختلف نمونے جیسے پھول، جیومیٹرک شکلیں اور خطاطی شامل ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ہزاروں سال قدیم ثقافتی شہر ملتان بھی اپنے نیلے مٹی کے برتنوں کے لیے جانا جاتا ہے۔اس قدیم ثقافت کا تعلق فارس اور ترکستان سے ہے۔چکنی مٹی کے برتنوں پر نیلے رنگ کی کاریگری کرنا بھی ایک قدیم ہنر ہے جو آج تک زندہ ہے۔ہاتھ سے بنے مٹی کے برتنؤں پر نیلے رنگ کا نقش و نگار ہاتھوں سے بڑی نفاست سے کیا جاتا ہے جس سے ان کی خوبصورتی میں نہ صرف چار چاند لگ جاتا ہے بلکہ اسے اپنے آپ میں منفرد بھی بناتا ہے۔

متعلقہ عنوانات