اپنی خوشیوں پہ تو فرحت بھی نہیں کر سکتے

اپنی خوشیوں پہ تو فرحت بھی نہیں کر سکتے
ہم تو اظہار مسرت بھی نہیں کر سکتے


حاکم وقت ہے اب خود ہی مددگار ستم
اس سے ظلموں کی شکایت بھی نہیں کر سکتے


تم کو ماں باپ نے پیدا کیا پالا پوسا
تم کہ ماں باپ کی خدمت بھی نہیں کر سکتے


اس قدر ٹوٹ کے چاہا تھا کبھی ہم نے تجھے
ہم تجھے چاہ کے نفرت بھی نہیں کر سکتے


تم نے زلفوں میں کیا قید مری نیندوں کو
کیا رہا کر کے عنایت بھی نہیں کر سکتے


اتنے مانوس ہیں ہم تیری گلی سے جاناں
ہم ترے شہر سے ہجرت بھی نہیں کر سکتے


ان کو یہ زعم کہ وہ خود ہیں مبلغ اے ذکیؔ
شیخ صاحب کو نصیحت بھی نہیں کر سکتے


ہم اسیران روایت کی یہ مشکل ہے ذکیؔ
ہم روایت سے بغاوت بھی نہیں کر سکتے