اپنے جلووں کو یوں نہ عام کرو

اپنے جلووں کو یوں نہ عام کرو
کچھ تو پردے کا اہتمام کرو


ظلمتوں کی بساط ہی کیا ہے
تم چراغوں کا انتظام کرو


خوش دلی سے ملا کرو سب سے
خندہ پیشانی اپنی عام کرو


یہ نہ بھولو کہ تم محافظ ہو
یوں نہ انساں کا قتل عام کرو


اپنے اجداد ہوں نہ شرمندہ
ایسا ویسا نہ کوئی کام کرو


اس سے دل کا سکون ملتا ہے
ذکر اللہ کا مدام کرو


مفلسوں کو نہ دیکھو نفرت سے
تم غریبوں کا احترام کرو


یوں نمائش کرو نہ دولت کی
اس برائی کا اختتام کرو


چاہتے ہو کہ برگزیدہ ہوں
تم حقائق کو اپنے نام کرو


مجھ کو تم سے بڑی محبت ہے
میرے جذبہ کا احترام کرو


اگلی نسلوں کو جس سے فیض ملے
ایسا دنیا میں کوئی کام کرو


یہ نئے عہد کا تقاضہ ہے
قاتلوں کا بھی احترام کرو


تیز رفتار ہے زمانہ ذکیؔ
تم ذکاوت کو تیز گام کرو