اپنا خورشید اور اپنا ہی قمر پیدا کر

اپنا خورشید اور اپنا ہی قمر پیدا کر
تو محبت کا شجر ہے تو ثمر پیدا کر


ہر بشر تجھ کو نظر آنے لگے اپنی طرح
اپنے اندر تو وہ ہی قلب و نظر پیدا کر


یہ تو ممکن ہی نہیں ہے وہ نہ چاہے تجھ کو
ہاں مگر اس کے لئے تو بھی جگر پیدا کر


منتظر ہوگا ترے واسطے ساحلؔ اے دوست
پہلے طوفان سے لڑنے کا ہنر پیدا کر


تیری آہیں بھی پہنچ جائیں گی رب تک اک دن
آہوں میں اپنی وہ دل دوز اثر پیدا کر


رات تاریک اگر ہے تو تجھے ڈر کیا ہے
داغ دل اپنے جلا اور سحر پیدا کر


تو بھی ہو جائے گا محبوب زمانہ ساحلؔ
اپنے اندر وہ محبت کی نظر پیدا کر