ہم تو شاید یہاں کے تھے ہی نہیں
ہم تو شاید یہاں کے تھے ہی نہیں
اس زمیں آسماں کے تھے ہی نہیں
تنہا تنہا ہی طے کیا ہے سفر
ہم کسی کارواں کے تھے ہی نہیں
اپنے دل میں نہ دی جگہ اس نے
ہم مکیں اس مکاں کے تھے ہی نہیں
موسم گل میں بھی نہ کھل پائے
پھول جو گلستاں کے تھے ہی نہیں
تم کو ساحل اماں وہ کیا دیتے
جو کہ قائل اماں کے تھے ہی نہیں