رنگ و بو کے جہاں کے تھے ہی نہیں
رنگ و بو کے جہاں کے تھے ہی نہیں
اس زمیں آسماں کے تھے ہی نہیں
راہ و منزل الگ رہے اپنے
ہم کسی کارواں کے تھے ہی نہیں
برق کو بھی رہا یہی افسوس
ہم کسی آشیاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے سمجھا تھا ان کو کیوں اپنا
وہ جو مہماں یہاں کے تھے ہی نہیں
منزلیں آسماں سے آگے تھیں
ہم زمان و مکاں کے تھے ہی نہیں
رنگ و بو اختیار کیوں کرتے
پھول اس گلستاں کے تھے ہی نہیں
ہو گئے رائیگاں سبھی سجدے
وہ جو اس آستاں کے تھے ہی نہیں