عجب سی گرد جمی ہے یہاں فضاؤں میں
عجب سی گرد جمی ہے یہاں فضاؤں میں
کہ جیسے دھند ملی ہو کہیں ہواؤں میں
جو منزلوں کے نشانات دے رہی ہیں تمہیں
ہماری گونج بھی شامل ہے ان صداؤں میں
کسی کے ہجر میں آنکھیں نکھر گئیں اپنی
یہ بھیگ بھیگ کے ڈوبی رہی دعاؤں میں
انہی کے یاد میں رہتا ہے چاند بھی شاداں
وہ جن کی خوشبو ابھی تک ہے میرے گاؤں میں
وہ جس کو کہتے تھے تہذیب مر چکی عاصمؔ
پناہ ڈھونڈئیے جا کر کہیں گپھاؤں میں