عجب بلا خیز مرحلہ تھا
عجب سفر تھا
عجب پر اسرار مرحلہ تھا
عجیب ہنگام رہ نوردی
عجیب شوق جہاں نما تھا
نہ کوئی صوت درا صدائے رحیل تھی
اور نہ کوئی منزل نہ کارواں تھا
عجیب خوئے سفر تھی
جو زاد راہ تھی
ہم سفر تھی
رہرو تھی
راہبر تھی
نہ دل میں اندیشۂ مراحل
نہ خوف جادہ
نہ انتظار سواد منزل
ہر اس طوفان باد و باراں
نہ پائے رہ آفریں میں لغزش
نہ راہ گم کردگی کا صدمہ
بس ایک بے باک حوصلہ تھا
جو ساری ہستی پہ چھا گیا تھا
کہ جان محشر بدست تھی
پیچ و خم رہ پر خطر کے عقدہ کشا تھے
دل فارغ خطر تھا
عجب سفر تھا
عجب بلا خیز مرحلہ تھا
کہ دور تک
سرحد افق تک
سمندر و سبزہ زار و وادی و کوہ و صحرا و دشت و دریا تھے
اور میں تھی
مسافرت تھی
سفر برائے سفر تھا
اک پیاس کا سمندر تھا
جو رگ جاں میں موجزن تھا
وہ عرصۂ معتبر تھا
یا عہد مختصر تھا
وہ جو بھی تھا
اک عجب سفر تھا
عجب بلا خیز مرحلہ تھا