ایسی جمائی تو نے مرے دل پہ دھاک بس

ایسی جمائی تو نے مرے دل پہ دھاک بس
ہر دم ہے تیری یاد ترا انہماک بس


وہ آسماں کا چاند ہے تو ہے چراغ راہ
تو دور سے ہی دیکھ اسے اس کو تاک بس


تیر و کماں کسی کے ہمیں کیا مٹائیں گے
تیغ نظر سے ہوتے ہیں ہم تو ہلاک بس


مل جائے گا قرار دل بے قرار کو
مجھ کو دکھا دے اپنا رخ تابناک بس


ہے مبتلائے درد و الم میری زندگی
بن تیرے کٹ رہی ہے مگر ٹھیک ٹھاک بس


کچھ اس میں لطف ہے نہ مزہ ہے نہ کیف ہے
قصہ غریب کا ہے بہت دردناک بس


خوشبو نصیب ہوتی ہے اس کو نہ گل قمرؔ
صحرا نشیں کے حصے میں آتی ہے خاک بس