ایسا کاش ابھی ہو جائے

بیلوں پر ٹافی کھل جائے
چائے کافی نل سے آئے
بسکٹ ڈالی ڈالی جھولے
بچہ بچہ جس کو چھو لے
بگیا ہوگی کتنی پیاری
لڈو ہوں جب کیاری کیاری
بوندیں ٹپکے بوندیں بن کر
برفی پھیلے گھر کی چھت پر
حلوے کا بادل گھر آئے
ایسا کاش کبھی ہو جائے
پیڑوں پر پیڑے لگ جائیں
جب چاہیں ہم توڑ کے کھائیں
ہر جانب سوہن حلوہ ہو
بالوشاہی کا جلوہ ہو
جھرنا خیر کا بہتا جائے
خوب جلیبی تیرتی آئے
بیری پر جب ماریں پتھر
کھیل بتاشے ٹپکیں دن بھر
بچہ کھائے بوڑھا کھائے
ایسا کاش کبھی ہو جائے
قلفی کا مینار کھڑا ہو
ہر تارے میں کیک جڑا ہو
نکلیں جب سڑکوں پر گھر سے
موتی چور کے لڈو برسے
میٹھے دودھ کی برساتیں ہوں
پیٹھے کی سب سوغاتیں ہوں
فالودے سے حوض بھرا ہو
لسی کا دریا بہتا ہو
بارش آ کر رس برسائے
ایسا کاش کبھی ہو جائے
نفرت ہو کڑوی بولی سے
الفت ہو ہر ہمجولی سے
شیریں کر دیں دنیا ساری
پیار سے بھر دیں دنیا ساری
دنیا میں ہر کام ہو شیریں
اول آخر نام ہو شیریں
سب سے حیدرؔ بولو میٹھا
میٹھا کھا کر بولو میٹھا
شیرینی ہونٹوں پر چھائے
ایسا کاش ابھی ہو جائے