اے شیخ مجھ کو خواہش باغ ارم نہیں
اے شیخ مجھ کو خواہش باغ ارم نہیں
کوچہ بتوں کا میرے لیے اس سے کم نہیں
پہلی سی اس میں عادت جور و ستم نہیں
افسوس اب یہی ہے کہ اس وقت ہم نہیں
ہاں کوئے غیر میں ترے نقش قدم نہیں
تجھ پر مرا گمان خدا کی قسم نہیں
مجھ نیم جاں کے قتل میں تاخیر اس قدر
معلوم ہو گیا ترے خنجر میں دم نہیں
نالو تمہارے ہاتھ ہے فرقت میں اپنی شرم
دیکھیں تو آج چرخ نہیں ہے کہ ہم نہیں
آب بقا ہو مجھ کو پلاؤ جو آب تیغ
تم زہر بھی جو دو تو وہ امرت سے کم نہیں
کرتا ہے مجھ سے عہد وفا تو وہ بت مگر
مجھ کو کچھ اعتبار خدا کی قسم نہیں
ممکن نہیں کہیں ہو ٹھکانا فہیمؔ کا
تیری نگاہ لطف اگر اے صنم نہیں