رہے ہمارے لئے شغل یاں کوئی نہ کوئی

رہے ہمارے لئے شغل یاں کوئی نہ کوئی
دیا کرے ہمیں غم آسماں کوئی نہ کوئی


اب اس میں حضرت زاہد ہوں یا برہمن ہو
بتوں کی چومتا ہے آستاں کوئی نہ کوئی


کبھی اٹھاتے ہیں دل پر کبھی جگر پر داغ
کھلا ہی رکھتے ہیں ہم بوستاں کوئی نہ کوئی


برا سمجھ مرے اعمال کو نہ اے واعظ
ہے اس متاع کا بھی قدرداں کوئی نہ کوئی


جو ڈگمگائے لحد پر مری تو فرمایا
ضرور دفن ہے بیتاب یاں کوئی نہ کوئی


اب اس میں ہو دل بے تاب یا ہو دیدۂ تر
کرے گا راز محبت عیاں کوئی نہ کوئی


کبھی ہے ٹیس جگر میں کبھی ہے دل میں درد
شب فراق ہے آزار جاں کوئی نہ کوئی


ہماری آتا شرر بار ہو کہ نالۂ گر
جلائے گا تجھے او آسماں کوئی نہ کوئی


وہ خود ہی آئیں گے اب یا مجھے بلائیں گے
اثر دکھائے گی آہ و فغاں کوئی نہ کوئی


فہیمؔ وصل کا ارماں ہو یا کہ ہجر کا غم
ہمارے دل میں رہا میہماں کوئی نہ کوئی