تڑپیں کب تک تری فرقت میں محبت والے
تڑپیں کب تک تری فرقت میں محبت والے
آ ادھر بھی کبھی او ناز و نزاکت والے
شیخ و واعظ ہوں نہ کس طرح کرامت والے
حضرت پیر مغاں کی ہیں یہ صحبت والے
کب تک ایذائیں سہیں تیری محبت والے
رحم کر رحم کر او ظلم کی عادت والے
شیخ رندوں کو برا کہہ کے گنہ گار نہ بن
ارے کمبخت یہی لوگ ہیں جنت والے
دیکھ جا آ کے کہ اب نزع کی حالت ہے مری
اتنی تکلیف کر اے میری نزاکت والے
مجھ سے عاصی کو جو محشر میں ملا باغ بہشت
رہ گئے دیکھ کے منہ زہد و عبادت والے
تیری فرقت میں تڑپتا ہے مرا دل کیسا
دیکھ آ کر کبھی او سخت طبیعت والے
جھوم کر آنے تو دے ابر سیہ اے ساقی
ابھی آ جائیں گے میخانے کی صحبت والے
دل تو کیا جان فدا کر دیں ترے قدموں پر
عاشقوں میں ترے ایسے بھی ہیں ہمت والے
چیخ اٹھے آتے ہی مسجد میں جناب واعظ
چونک اٹھتے ہیں یوں ہی خواب سے غفلت والے
کوئی کرتا ہے مئے عشق کو جائز کوئی منع
دیکھیں کیا حکم لگاتے ہیں شریعت والے
صحبت مئے میں بھی ملتا نہیں واعظ کو مزہ
ایسے دیکھے ہی نہیں خشک طبیعت والے
رہ گیا چپ ہی سوالوں پہ نکیرین کے میں
سن چکا تھا کہ فرشتے ہیں یہ جنت والے
کل سے ہے وعدۂ وصل آج نہ کہہ یاد نہیں
اس قدر بھول نہ او بھول کی عادت والے
قبر سے اٹھ کے قیامت میں وہیں پہونچیں گے
حوض کوثر ہی پہ دم لیں گے ترے متوالے
میت عاشق شیدا ہے اٹھانا لازم
اتنا نازک نہ بن او میرے نزاکت والے
منفعل ہو کے ہوئے پرسش عصیاں سے بری
سب سے اچھے رہے محشر میں ندامت والے
ہم کہیں کیا کہ ہمیں کچھ نہیں آتا ہے فہیمؔ
ناز کرتے ہیں طبیعت پہ طبیعت والے