بتو کچھ حد بھی ہے جور و جفا کی

بتو کچھ حد بھی ہے جور و جفا کی
ہے آخر انتہا ہر ابتدا کی


جگہ کیا ہو ان آنکھوں میں حیا کی
بھری ہو جن میں شوخی انتہا کی


شب غم آنے میں کرتی ہے غمزے
ادا بھاتی نہیں مجھ کو قضا کی


مرا دل لے کے اب مجھ پر یہ ظلم آہ
دغا کی تو نے او ظالم دغا کی


مزا ہے مے کشی کا ابر میں آج
فلک پرچھائی ہے رحمت خدا کی
بتوں کی مہربانی کیا کرم کیا
عنایت چاہئے مجھ پر خدا کی


تجھے او بے وفا چاہا ہوئی چوک
تجھے دل نے دیا میں نے خطا کی


یہ کیوں اڑتا ہے چہرے کا مرے رنگ
ہوئی کس شوخ کو حاجت حنا کی


وہ لیں گے جان بھی واں لے کے اک دن
خبر تھی ابتدا میں انتہا کی


چلا دل کوچۂ گیسو کو جس دم
دعا کی پڑھ کے دم رد بلا کی


گئے تھے وہ جہاں ہم ڈھونڈھ لیتے
مدد ملتی جو ان کے نقش پا کی


دل مضطر کی کچھ حالت نہ پوچھو
تڑپ بجلی میں ہے آج انتہا کی


جب آتے ہیں چڑھا جاتے ہیں دو پھول
وہ تربت پر فہیمؔ مبتلا کی