اگر سجدوں میں سوز دل نہیں ہے
اگر سجدوں میں سوز دل نہیں ہے
عبادت کا کوئی حاصل نہیں ہے
بھٹکنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہے
سفر کی جب کوئی منزل نہیں ہے
زبان حال سے کہتی ہیں لاشیں
محبت کا کوئی قائل نہیں ہے
اثر جس پر نہ ہو آہ و فغاں کا
وہ سچ مچ پیار کے قابل نہیں ہے
یقیناً وہ یہیں ہوگا کہیں پر
مرا دل گمشدہ فائل نہیں ہے
مری آنکھیں ہیں ماضی کا حوالہ
مرے خوابوں میں مستقبل نہیں ہے
ہمارے دور میں شاید وفا بھی
نصاب عشق میں داخل نہیں ہے
کوئی عفریت گزرا ہے ادھر سے
یہاں لاشیں تو ہیں قاتل نہیں ہے
گریباں چاک ہے یاں ہر کسی کا
مہ کامل بھی اب کامل نہیں ہے
کوئی آیا نہیں مجھ کو بچانے
مجھے لگتا ہے یہ ساحل نہیں ہے
جسے تردید کرنے کی ہو عادت
وہ قائل ہو کے بھی قائل نہیں ہے
کسی پر تو یقیں کرنا پڑے گا
یہاں ہر شخص تو باطل نہیں ہے
صہیبؔ اس بے وفا کا کیا کریں ہم
ہمارا دل ہمارا دل نہیں ہے