آس میں کاٹے بیس برس اور یاس میں کاٹے بیس برس
آس میں کاٹے بیس برس اور یاس میں کاٹے بیس برس
کچھ نہ پوچھو ہم نے کیسے کاٹے ہیں چالیس برس
جس نے ہم کو عشق سکھایا جس سے سمجھے سارے گر
اس کی عمر تھی سولہ سترہ اپنی تھی اکیس برس
آتے جاتے ہر موسم میں اس کا جادو قائم ہے
بیس برس سے دیکھ رہا ہوں لگتی ہے انیس برس
میرا جسم بھی سوکھ چلا ہے نیل کے ساحل جیسا کھیت
ملک سلیماں پر تو لہرا بادل بن بلقیس برس
آخر شب میں سارے مومن ریشہ ریشہ بھیگ گئے
زاہد جتنے خشک بچے ہیں ان پہ تو ابلیس برس
ہم کو بچھڑے کتنے گزرے سال بتا دوں اے کشمیر
تیرے سولہ میرے سولہ ہوتے ہیں بتیس برس