آپ کو غیر سے الفت ہو گئی

آپ کو غیر سے الفت ہو گئی
ہاں جبھی تو مجھ سے نفرت ہو گئی


ان بتوں سے ترک الفت ہو گئی
مجھ پہ خالق کی عنایت ہو گئی


ہجر میں اس کے یہ وحشت ہو گئی
اپنے سائے سے بھی نفرت ہو گئی


خواب میں ان کی زیارت ہو گئی
آج پوری دل کی حسرت ہو گئی


چلئے جھگڑوں سے فراغت ہو گئی
جان اپنی نذر فرقت ہو گئی


ہجر میں مجھ پہ جو کچھ گزری نہ پوچھ
ہو گئی جو میری حالت ہو گئی


حد تری جور و جفا و ظلم کی
ہو گئی او بے مروت ہو گئی


اب تو وہ صورت بھی دکھلاتے نہیں
چار دن صاحب سلامت ہو گئی


مجھ کو اک دن ہے بجائے ایک سال
آپ کی دوری قیامت ہو گئی


جان دی ناحق کو میں نے ہجر میں
مفت اس بت سے ندامت ہو گئی


دی یہ ساقی نے مجھے کیسی شراب
بد مزہ میری طبیعت ہو گئی


غور سے سنتے ہیں اک اک حرف وہ
داستان غم حکایت ہو گئی


سچ کہا اے دل بتوں کے ظلم سے
جان عاجز فی الحقیقت ہو گئی


اس کے کوچے کی گدائی اے فہیمؔ
میرے حق میں بادشاہت ہو گئی