آنکھیں لہولہان کیں دامن بھی تر کیا
آنکھیں لہولہان کیں دامن بھی تر کیا
تیری ہر ایک بات نے دل پر اثر کیا
کچھ تو طبیعتاً بھی تھے آوارہ گرد ہم
کچھ تیری جستجو نے ہمیں در بدر کیا
یوں تو ہمارے ساتھ کئی لوگ تھے مگر
کانٹوں بھری زمین پہ تنہا سفر کیا
ہم نے ہی اپنے خون کا غازہ دیا تجھے
ہم نے ہی تجھ کو صنف غزل معتبر کیا
کس نے ہماری راہ میں کانٹے بچھا دئے
کس نے ہماری راہ کو دشوار تر کیا
آخر اداسیوں کے سیہ ابر چھٹ گئے
کوئی تو ہے ہمارا کہ شب کو سحر کیا
سچائیوں میں لپٹے ہوئے جھوٹ کے سبب
مشکل سے اعتبار کے جنگل کو سر کیا