آن بان

’’کیا؟ہری سنگھ کی شادی ہورہی ہے؟ارے کسی نے یوں ہی اُڑادی ہوگی۔‘‘
’’اجی نہ چودھری صاحب، بات سولہوآنہ پکی ہے۔‘‘سندر نے کہا۔
’’مگربھئی ،یہ ہواکیسے؟‘‘
’’کان میں اُڑتی اُڑتی پڑی ہے کہ گھٹیا والے ننوانے بات لگائی ہے۔‘‘سندرگردن کامیل چھڑاتے ہوئے بولا۔
’’کس کے ہاں؟‘‘
رام نگر والے ٹھاکر نیک سنگھ کے ہاں‘‘
’’مگریہ تودھوکا ہے۔‘‘چودھری صاحب نے فرشی حقہ اپنی طرف کھینچا جسے سندرابھی ابھی تازہ کرکے لایاتھا ۔شہزاد خاں گلیارے سے گزررہے تھے ،چودھری صاحب کوحقہ پیتے دیکھا تووہ بھی چوپال پردھوپ میں آن بیٹھے۔
’’سناآپ نے ،ہری سنگھ کی شادی ہورہی ہے۔‘‘
’’ہاں چودھری صاحب سناتو ہے ۔معلوم نہیں ٹھاکر صاحب نے کیا سوچا ہے ۔جب اس کی ماں مری تھی توبے چارے کی عمر ہی کیاتھی۔ تبھی سے اس کی یہ حالت ہوگئی ہے، جہاں جھلستی گرمیاں آئیں اور لگے دورے پڑنے۔‘‘
شہزاد خاںنے حقے کی چلم اٹھائی اورکش لگانے لگے۔
’’مگرخاں صاحب، اس حالت میں شادی؟وہ توعورت کولال جوڑے میں دیکھ کر بالکل ہی پاگل۔۔۔‘‘
شہزاد خاں نے چلم پھر نَیچے پرجمادی اوربولے۔‘‘بھئی دل میں ڈربیٹھ گیا ہے لال رنگ سے ،شادی کے بعد شاید نکل جائے۔‘‘
چودھری صاحب نے حقے کی نَے کومُٹھی میں بھرکرمنہ سے لگالیا، آج انھیں تمباکو بہت کڑوامحسوس ہوا، کھانستے ہوئے سندرسے بولے۔’’کیاشیرہ کم ڈالاہے؟دھانس بہت ہے۔‘‘سندرنے جواب تو دیامگرچودھری صاحب کچھ نہ سن پائے اورکھانستے ہی رہے۔ سنتے بھی کیسے، ٹھاکر تیج بہادرسے ان کاپرانابیرتھا۔
سورج سرپرآچکاتھا مگراب بھی اس کی کرنیں سردی سے کانپ رہی تھیں۔ ہری سنگھ کے پِتا ٹھاکر تیج بہادرمہمانوں سے کہہ رہے تھے۔’’شادی بیاہ کامزہ تو سردیوں میں ہی ہے۔‘‘یہ جانتے ہوئے بھی کہ ٹھاکر تیج بہادراپنے بیٹے کی شادی سردیوں میں کیوں کررہے ہیں، ہرآدمی انجان بناہواتھا۔ ہری سنگھ کی بوانے اسے نہلادھلاکر دولھابنادیا۔ محلے کی عورتوں نے کھونٹی پرٹنگی ڈھولک کوڈرتے ڈرتے اتارا، ڈوریاں کسیں اورپھر ڈھولک کی تھاپ اورگیتوں کی آوازنے سبھی کے دل سے ڈر نکال دیا۔ برات چلی گئی، پورے ٹولے میں رت جگاہوا، محلے بھر کی عورتیں ناچتی گاتی رہیں۔ گلی کے نکّڑپررات بھردیسی گھی کے دوچراغ جلتے رہے اوردوسرے دن بہوگھر میں آگئی۔ محلے کی کچھ بڑی بوڑھیوں کاکہنا ہے کہ رات ایک دیابجھ گیا تھا، چپکے سے ہری سنگھ کی بوانے جلادیا۔ بوامارے خوشی کے بہوکے پیروں میں بچھی پڑرہی تھیںاوراتنی بار لجّا کی بلائیں لی تھیںکہ اب ان کی انگلیوں نے چٹخنا بندکردیاتھا۔ بوانے دودھ سے بھرا دھنّو کمہار کے ہاں کابنامٹی کانقشیں پیالہ بہو کے ہونٹوںسے لگادیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولیں۔’’پی لے بہو۔۔۔بہت تھک گئی ہوگی۔‘‘
چوبارے کے سامنے والااٹّا ۔جس میں پیاز پڑے پڑے کلّے دینے لگی تھی، جھاڑ پونچھ کرصاف کردیاگیا۔ جب رات اونگھنے لگی توہری سنگھ کواوپراٹے میں لجّا کے پاس بھیج دیاگیا ۔لجّا گھٹنوں میں سردیے لال شینیل کی چادراوڑھے مسہری پربیٹھی تھی۔ ہری سنگھ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کیاکہے مگراتناجانتاتھا کہ اسے کچھ کہنا ہے ،آخربول پڑا۔ ’’وید جی کہہ رہے تھے اب میری طبیعت خراب نہیں ہوگی۔ گرمیوں میں بھی نہیں۔‘‘
پھرتھوڑی دیررک کربولا۔’’تم وید جی کونہیں جانتیں، وہ پتا جی کے متر ہیں۔ جب مجھے دورے پڑنے شروع ہوئے تو پتاجی نے اسکول سے اٹھوالیا، مگروید جی نے پڑھانانہ چھوڑا۔ میں نے ان سے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ میرے گروہیں۔‘‘
لجّانے گھونگھٹ کے اندرسے جھانکا اورپھرگردن جھکالی ،کچھ دیر وہ خاموش بیٹھارہا، سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کس طرح بات آگے بڑھائے ۔پھراس کی نظریں اٹھیں اوراٹّے کے چاروں کونوں میں گھومتی ہوئی لجا کے گھونگھٹ پرآکر ٹھہر گئیں۔
سرخ کپڑوں میں دہکتی ایک عورت۔لجّا۔اس کی ماں ،چتااورجھلستا ہوااس کابدن، نہیں۔۔۔۔چیخ اس کے اندرگھٹ کر رہ گئی ۔مڑکردیکھا توپرات میں انگارے دہک رہے تھے۔ سردی بہت تھی، بوانے پرات میں انگارے رکھ دیے تھے۔ کونے میں لالٹین جل رہی تھی۔ جلتی ہوئی لالٹین لجّا کے سرخ کپڑے ،پرات میں دہکتے انگارے۔۔۔اسے اپنے جسم سے چنگاریاں سی اٹھتی محسوس ہوئیں، چنگاریاں آگ کی لپٹیں بن گئیں۔اونچی اونچی لپٹوں کے درمیان اس کی ماں کابدن جھلس رہا ہے۔ وہ سب سے چھپ کر بہت آگے جاکھڑا ہوا ہے۔
’’ماں ۔‘‘
’’آجا ہری۔۔۔‘‘
ماں نے دونوں بانہیں پھیلادیں۔ ہری سنگھ بانہوں میں جاکر جھول گیا۔
’’ارے نگوڑے تنک دیکھ کے ۔چولھے پرتواچڑھا ہے۔ چل ادھربیٹھ۔‘‘
ماںنے اس کے آگے بیسن کے چیلے پروس دیے۔ اس نے تھالی ایک طرف کو ہٹائی اورہمک کرماں کے پاس آن کھسکا ۔ماںنے چولھے میں ایک لکڑی اوررکھ دی۔ آگ بھڑک اٹھی۔ ماں کابدن جھلسنے لگا۔ چتا کی لپٹیں تیز ہوگئی تھیں۔ ’’ماں‘‘۔وہ چیخا اورچتامیں جلتی ماں کی بانہوں میں جاکر جھول گیا۔ سبھی کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔بھولانے بڑھ کر اسے کھینچا مگر اس کاداہنا ہاتھ بالکل جھلس چکاتھا۔ کئی دن بے ہوش رہا اورجب ہوش آیا توایک زوردار چیخ ٹھاکر تیج بہاد رکے آنگن میں گونجی ۔
’’کیاہوا؟‘‘لجّا اس کی چیخ سن کر گھبراگئی۔
’’کچھ نہیں۔وید جی کہہ رہے تھے ،اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
سرخ چادرکاگھونگھٹ لجّا کے سرسے کھسک کرکندھوں پرڈھلک آیاتھا اوروہ گم صم ہری سنگھ کو تکے جارہی تھی۔ ہری سنگھ نے دیکھاکہ اس کے ماتھے کی سرخ ٹکیا پھیلتی جارہی ہے۔ کونے میں جلتی لالٹین ،دہکتے انگاروں سے بھری رات، سرخ چادر اور ماں کی چتا، سب کچھ لجّا کی سرخ بندیا میں سمٹ آیاتھا۔ وہ آگ کے گولے میں لجا کوڈھونڈنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگا۔ پیروں میں کپکپاہٹ ہوئی۔ لڑکھڑایا، گرا، سنبھلا اورپھراس نے خود کو اٹّے کے باہر چوبارے کے اس طرف کھلی اور ویران چھت کی منڈیر پراکیلا بیٹھاپایا۔
لجارات گئے تک انتظار کرتی رہی مگرجب ہری سنگھ نہیں آیاتو وہ اٹھی ،بھڑے ہوئے کواڑ دھیرے سے کھولے اورباہر جھانکنے لگی۔ اس نے دیکھا کہ ہری سنگھ دونوں ہاتھ بغلوں میں دبائے چھجّے پرپیرلٹکا کرمنڈیر پر بیٹھا ہے ۔وہ آہستہ آہستہ ننگے پائوں چلتی ہوئی اس کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ تھوڑی دیر کھڑی رہی پھر چپکے سے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ ہری سنگھ نے مڑکردیکھااورکچھ کہنا چاہامگرآواز جھلسے ہوئے کاغذ کی طرح بھربھراکر رہ گئی اوروہ صرف اٹے کی طرف اشارہ ہی کرسکا۔ لجاگردن جھکائے کھڑی رہی۔ تھوڑی دیر بعد ہری سنگھ بھی اٹھ کھڑاہوگیا۔ لجااسی طرح کھڑی رہی۔ ہری سنگھ نے ڈھینچے کی لکڑیوں کے گٹھر سے ایک لکڑی کھینچی اوروہ کچی چھت کی مٹی کو کرید نے لگا۔ تھوڑی دیر تک مٹی کو کریدا، کچھ ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں،پھر لکڑی کوتوڑا اورباہرگلی میں پھینک دیا۔ لجانے بڑھ کر ہری سنگھ کابازو پکڑلیا۔ ہری سنگھ نے اس کی طرف دیکھاوہ خشک آنکھوں سے اسے گھوررہی تھی۔ اب اس نے لجّا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبالیاتھا۔ لجا کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیںاورکاجل رخساروں پراترآیاتھا۔ نہ ہری سنگھ نے کچھ کہااورنہ ہی لجاکچھ بولی، بس دونوں اٹے میں ایک ساتھ داخل ہوئے اور ہری سنگھ نے دروازہ بندکرلیا۔ لجاسمٹ کرمسہری پربیٹھ گئی۔ لالٹین انھیں گھوررہی تھی۔ ہری سنگ نے اٹھ کر لالٹین کے مہرے کوگھمایا اورجب بتی اتنی گرگئی کہ چمنی کے احاطے سے باہرنکلناروشنی کے بس میں نہ رہا تو اس نے لجا کے بدن سے پھوٹتی روشنی میں پناہ لی۔ یہ روشنی سرخ نہیں تھی، سبز بھی نہیں تھی، اس کاکوئی رنگ نہیں تھا ، یاپھراس میں سارے رنگ موجود تھے۔ زندگی اور موت کے سارے رنگ۔ وہ رات بھراسی روشنی کی نرم آگ کے ایک نئے احساس کو اپنے وجود میں اتارتا رہا۔ اوریہ آگ پانی بن کر اس پربرستی رہی اورپھردھیرے دھیرے اس کے جسم کی تمام چنگاریاں بجھ گئیں۔
صبح ہوئی توہری سنگھ کی بوانے دیکھا کہ لجاشرمائی لجائی اٹے سے نکل رہی ہے ،وہ پھولے نہیں سمائیں۔ ٹھاکر صاحب نے سناتوسیدھے وید جی کے ہاں دوڑ پڑے۔’’وید جی بھگوان کی دیاہوئی ۔لجاخوش ہے، ایشور آپ کابھلا کرے۔‘‘ پھر گھر لوٹے اور کئی برس سے بکسے میں بند پڑی بسنتی پگڑی کونکالا، سرپرسجایا اورلٹھ ہاتھ میں لے کر بازار کی طرف چل پڑے۔ بوانے کئی طرح کے پکوان تیارکرنے شروع کردیے۔ لجا کے پتاٹھاکر نیک سنگھ کے آنے کا سمے ہوگیاتھا۔
ہری سنگھ پوکھروالے موڑ پر ٹھاکر نیک سنگھ کی بس کے انتظارمیں صبح سے ہی کھڑاتھا۔ بسیں گزرتی رہیں اورشام ہوگئی۔ وہ مایوس ہوکر لوٹنے ہی والاتھا کہ ایک بس آکررکی اوراس میں سے ٹھاکر نیک سنگھ اترے۔ ہری سنگھ بڑھ کر ان کے پیر چھونے کو جھکا۔ ٹھاکرنیک سنگھ نے تعجب سے ہری سنگھ کودیکھااوردوقدم پیچھے ہٹ گئے۔ ہری سنگھ کے ہاتھ دگڑے کی دھول میں جادھنسے ، دھول اڑکر پتانہیں کیسے ٹھاکر نیک سنگھ کی آنکھوں میں بھرگئی۔ ہری سنگھ کے سامنے فضا شفاف تھی اورٹھاکر نیک سنگھ کے سامنے غبار آلود۔
جب ہری سنگھ ٹھاکر نیک سنگھ کولے کر گھر پہنچا تو بوا دروازے کے باہر چھپرکے نیچے کھڑی ان کاانتظار کررہی تھیں، جلدی سے اندرگئیں اوردالان میں کھاٹ بچھانے لگیں۔ ہری سنگھ بھاگتا ہوا کوٹھے میں گیا اورایک نئی دری لاکر کھاٹ پربچھادی۔ ٹھاکر نیک سنگھ بیٹھ گئے اوراپناصافہ اتارکر سرہانے رکھ دیا۔ لجاپیتل کابڑا گلاس بھرکردودھ لے آئی۔ ٹھاکرنیک سنگھ نے آہستہ سے پوچھا۔’’بٹیا۔۔۔راضی خوشی ہو۔‘‘ اورلجا نے شرما کر گردن جھکالی‘‘۔
ٹھاکر تیج بہادر بازارمیں دن مندے تک ٹہلتے رہے۔ پورے پھڑکے کئی چکر لگائے اورجب گھر لوٹے توانھوںنے دیکھا کہ آسمان پرچاند اورکھاٹ پر ٹھاکر نیک سنگھ براجمان ہیں۔ دونوں نے وہیں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ہری سنگھ نے پیتل کی لٹیا میں پانی بھرکر ان کے پاس رکھ دیا۔ بوانے دری کاکوناہٹایا اورکھاٹ کی ادوائن میں دوگلاس اڑس دیے ۔ٹھاکر نیک سنگھ پھٹی پھٹی آنکھوںسے سب کچھ دیکھتے رہے مگرجیسے ہی وہ ہری سنگھ کو دیکھنے کی کوشش کرتے ،دگڑے کی دھول ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرابن کرچھاجاتی۔
جب رات بولنے لگی توہری سنگھ لجا کے پتا کی پائینتی آکر بیٹھ گیااور اپنے مضبوط ہاتھ رضائی کے اندران کی پنڈلیوںپر رکھ دیے۔’’پتاجی ،آپ تھک گئے ہوں گے۔‘‘
ٹھاکر نیک سنگھ جیسے اچھل پڑے، پھرکروٹ لی، ٹانگیں سمیٹیں اوربغیرکچھ کہے منہ موڑ کرسوگئے۔ ہری سنگھ حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔ دوسرے دن لجا کوٹھاکر نیک سنگھ کے ساتھ جاناتھا۔ وہ چلی گئی اورہری سنگھ کو لگاجیسے اس کے جسم سے کوئی چیز نکال لی گئی ہو۔
کئی مہینے بیت گئے لجا واپس نہیں آئی ۔ ہری سنگھ نے دوچار چٹھیاں لکھیں مگرکوئی جواب نہیں۔ ہری سنگھ کے پتابلانے گئے مگراکیلے لوٹ آئے، پوچھے جانے پرکچھ بھی نہیں بتایا۔ پھراچانک ایک لجا کی چٹھی ملی ،بس اتنالکھاتھا’’پتاجی سے کہومجھے آکر لے جائیں۔‘‘ جب ہری سنگھ نے ٹھاکر تیج بہادر کوچٹھی دکھائی تو وہ آگ بگولاہوگئے۔ ’’میں ایک بارجاکر لوٹ آیا ہوں۔ اورپھرریت تو یہ ہے کہ ٹھاکر نیک سنگھ خود بہوکو یہاں چھوڑنے آئیں۔‘‘
ایسی کسی ریت کے بارے میں ہری سنگھ نے پہلے کبھی نہیں سناتھا۔ اُسے ویدجی کی بات یادآئی۔’’ ہمارے اہنکار ہی ریت رواجوں کوجنم دیتے ہیں۔‘‘
سردیاں بیتیں ،گرمی کی رت آگئی۔ وقت گزرتارہا اورایک روزٹھاکر تیج بہادر نے دیکھا کہ ہری سنگھ دن بھر چلچلاتی دھوپ میں پوکھروالے موڑکی پلیا پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش گیا ہے اور کئی لوگ اسے اٹھاکر لارہے ہیں۔ گرمی بہت تھی، منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، ہوش توآگیا مگرپھرایسی چُپی سادھی کہ بولنے کانام نہیں لیا۔ کئی ہفتے بعد وہ چپکے سے گھرسے نکلا اوردوڑتا ہوا وید جی کی بیٹھک کے پاس جاپہنچا۔ شہزادخاں وہاں سے گزررہے تھے۔ ’’کیابات ہے ہری سنگھ ؟کہاں بھاگے جارہے ہو؟‘‘
ہری سنگھ نے ہانپتے ہوئے وید جی کے دروازے کی طرف اشارہ کیا ۔ویدجی کے دروازے پرتالا لٹکا ہواتھا۔ شہزاد خاں نے تالے پر جمی دھول کودیکھا اوروہ ٹھنڈی سانس بھرکراس طرف بڑھ گئے جدھر سے ٹھاکر تیج بہادر گھبرائے ہوئے ہری سنگھ کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے ۔ ٹھاکر تیج بہادر کے قریب پہنچ کررکے ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال کران کی گردن اونچی کی اوربولے۔’’ٹھاکر صاحب ہری سنگھ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں خاںصاحب۔۔۔ویسے تووہ ٹھیک ہے ،بس گھرمیں بند رہتا ہے۔‘‘ٹھاکر تیج بہادر کی آواز اکھڑی اکھڑی سانسوں کے سہارے نکلی۔‘‘ وید جی کے دیہانت کی خبرسن کر بھی وہ گھرسے نہیں نکلاتھا، آج بہت دنوں بعداچانک۔۔۔۔۔‘‘
پھران دونوں نے دیکھا کہ ہری سنگھ نے گلی سے ایک اینٹ کاادّھا اٹھالیا ہے۔ ٹھاکر تیج بہادراس کی طرف لپکنے ہی والے تھے کہ اینٹ کاادھاوید جی کی بیٹھک کے بند کواڑوں سے ٹکراکرچکنا چورہوگیا۔ پھراس نے دوسراادھا اٹھایا پھرتیسرا اور بہت دیر تک وید جی کے دروزاے پراینٹیں برساتارہا۔
وید جی کوگزرے مہینوںہوگئے ہیں، ان کے گھرپر تالاپڑا ہے۔ مگرہری سنگھ اکثر وہاں جاتا ہے، دروازے پردوچار اینٹیں مارتا ہے اورواپس چلاآتا ہے۔ یوں تو وہ ٹھیک ہے لیکن گھرمیں جب بھی لجا کی بات نکل آتی ہے تواس سے رہا نہیں جاتا اور سیدھا وید جی کے دروازے پرجاپہنچتا ہے۔ ٹھاکر تیج بہادر یہ تونہیں سمجھ سکے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے مگراس کی یہ حالت دیکھ کر انھوںنے اپنی بسنتی پگڑی پھربکسے میں رکھ دی اورسفید صافہ باندھ کر وہ لجا کے گائوں رام نگرجاپہنچے۔
دونوں ٹھاکر ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑکر کھڑے تھے۔ دونوں کچھ کہنا چاہتے تھے مگرخاموش تھے۔ ہری سنگھ کے پِتا کی آواز کپکپائی۔’’ٹھاکر صاحب کیاانجانے میں کوئی بھول ہوگئی ہم سے۔‘‘
’’نہیں ٹھاکر صاحب بھول توہم سے ہوئی ہے ،اب ہمیں چھماکرو۔‘‘
ہری سنگھ کے پتاکچھ نہیں سمجھ سکے اوربول پڑے۔’’لجا۔۔۔۔‘‘
’’لجا؟ ٹھاکر صاحب لجا کی ماں اسے میری گود میں چھوڑ کر پر لوک سدھارگئی تھی۔ بہت لاڈسے پالا ہے میں نے اسے ، ہنڈولا گھرمیں ہوتاتھا اورجھولا باغ میں ۔مجھے کیاپتاتھا کہ ایک دن ان ہی ہاتھوں سے نرک میں جھونک دوںگااسے۔‘‘
’’نرک میں؟ٹھاکر صاحب یہ کیسی باتیں۔۔۔۔‘‘
’’اورکیا اسے سؤرگ کہوں ؟ہمارے ساتھ دھوکاہوا ہے۔ اس پاگل کوہماری بیٹی کے پلّے باندھ دیا۔ وہ تو بھلا ہو سندر اور چودھری صاحب کا کہ دوسرے دن ہی یہاں آکرسب بتاگئے اورمیں چپ چاپ اس نرک سے اسے نکال لایا ورنہ وہ تو گھٹ گھٹ کرمرجاتی۔‘‘
’’مگرٹھاکرصاحب وہ توبچپن کی بات ہے۔ اب توہری سنگھ ٹھیک ہے۔ بس لجا کو۔۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے!اوربیاہ کے دوسرے دن جب لجا کو لینے گیاتووہ پاگلوں کی طرح پورے دن پوکھر والی پلیا پر بیٹھارہا، اس پر کہتے ہو کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہے اورجب میں بس سے اتراتواس نے پتا ہے کیاکیا؟میرے پیرچھوئے۔ ٹھاکر کیاتم نہیں جانتے کہ ٹھاکروں میں داماد نہیں سسُر پیرچھوتے ہیں داماد کے۔ کس طرح میرے آگے پیچھے لگاگھوم رہاتھا۔ کبھی پانی لا کبھی چلم۔کبھی ہاتھ پائوں دھلانے کولوٹالیے براجمان۔ اورتواوررات میں پائوں دبانے بیٹھ گیا۔ یہی ٹھاکروں کے ریت رواج ہیں کیا؟ کہتے ہو ٹھیک ہوگیا ہے وہ۔۔۔یہی ٹھیک ہوا ہے۔ چِٹّھی پرچِٹھی لکھتا ہے لجاکو، گڑگڑا تا ہے مہرارو کے آگے ۔لکھتا ہے میں پاگل ہوجائوںگا۔ ٹھاکر کہتے ہیں اپنے آپ کو ٹھاکر ۔آن ہے نہ بان۔ بہو کولینے آئے ہیں۔ خود آن پہنچے ناک رگڑتے ہوئے۔‘‘
لجا اوٹے کے پیچھے کھڑی سب کچھ سن رہی تھی۔ رہانہیں گیا، سسکتے ہوئے بولی۔ ’’پتاجی۔۔۔‘‘ اتناہی کہہ پائی تھی کہ ٹھاکر نیک سنگھ دہاڑے۔’’توجااندر خبردارجوباہر نکلی ۔ مُنّا کوچھوڑے یہاں کھڑی ہے۔ وہ کوٹھری میں اکیلاپڑا ہے۔ ‘‘
’’مُنّا؟آپ نے خبرنہیں دی۔‘‘
’’ٹھاکرصاحب جب آپ سے کوئی ناتاہی نہیں رہاتوخبرکیسی ۔میںنہیں چاہتاکہ مُنّا پراس پاگل کاسایہ بھی پڑے۔‘‘
’’وہ پاگل نہیں ہے ٹھاکر صاحب۔۔۔۔اس نے جوکچھ کیا، وہ وید جی کے سکھائے ہوئے سنسکار تھے۔ان ہی کی سنگت کااثر ہے۔ انھوںنے ہی اپنے بڑوں کی عزت کرنااورجھوٹی آن بان سے بچنا سکھایاہے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔۔بڑوں کی عزت؟اوراپنی عزت۔۔۔۔؟اپنی عزت مٹی میں ملانابھی ویدجی نے ہی سکھایاہوگا۔وید جی کے سنسکار سیکھ لیے اوراپنے سنسکار بھول گیا۔ میں کہہ چکا ہوں، ٹھاکر صاحب آپ سے ہمارااب کوئی ناتانہیں۔‘‘ٹھاکر تیج بہادر کی کنپٹی پرجیسے کسی نے اینٹ کا ادّھا دے ماراہو۔۔۔۔’’اینٹ کاادّھا‘‘۔’’ویدجی کابنددروازہ‘‘۔ہری سنگھ ایک کے بعد ایک اینٹ کے ادّھے چلارہا ہے۔ اب کچھ کچھ ٹھاکر تیج بہادر کی سمجھ میں آرہاتھا کہ ہری سنگھ وید جی کے دروازے پر اینٹیں کیوں مارتا ہے۔ وہ مڑے اوربھاری بھاری قدموں سے رام نگرکی سرحد پارکرکرتے ہوئے واپس اپنے قصبے کی طرف لوٹنے لگے۔
لوٹ کر جب ٹھاکر تیج بہادرنے ساری بات ہری سنگھ کی بواکوبتائی تو گھرمیں کہرام مچ گیا۔ ہری سنگھ نے سناتوبھاگ کر کوٹھری میں بند ہوگیا ۔ بہت دیر دروازہ پیٹنے کے بعد جب کواڑکھولے توٹھاکر تیج بہادرنے دیکھاکہ ہری سنگھ پاجامے کاایک پائینچا پھاڑ کر اپنے گلے میں لپیٹے ہوئے ہے۔ کواڑکھلتے ہی وہ کوٹھری سے باہر آگیا۔
’’بوا،لجا کے پتاجی کوپجامہ پہنا دو۔۔۔‘‘ پھرچاروں اوردیکھتے ہوئے بولا۔’’لجا کہاں ہے؟ ارے ہاں وہ تواپنے پتا جی کے ساتھ گنگانہانے گئی ہے‘‘پھراس نے ایک چھلانگ ماری اورتیزی سے گلی میں دوڑ پڑا۔ اب وہ صبح سے شام تک پوکھروالے موڑکی پلیاپر بیٹھارہتا ہے اورہرراہ گیر سے پوچھتارہتا ہے۔
’’بھیا گنگا نہاکے آرہے ہو؟ لجاملی تھی؟‘‘
جواب نہ پاکر وہ بڑبڑاتے ہوئے اس طرف دیکھنے لگتا جہاںسے بس آتی دکھائی پڑتی ۔بس آتی اوراس کامنہ چڑاتی ہوئی گزرجاتی۔ اگرکوئی بس رکتی اوراس میں سے کوئی زنانی سواری اترتی تووہ دوڑکراس سے لپٹ جاتا۔’’لجا۔‘‘ ایک بارتو اس کی بری طرح پٹائی شروع ہوگئی۔وہ توکہیے کسی بھلے مانس نے پہچان لیا۔’’ارے یہ توہری سنگھ ہے۔۔۔۔پگلا۔۔۔۔‘‘
ٹھاکر تیج بہادرکئی باررام نگر جاکر لوٹ آئے مگرلجا کونہ لاسکے، ہاں اتنی خبرضرور لے آئے کہ لجا کابیٹا منااب پاٹھ شالا جانے لگا ہے۔ دن مہینے اوربرس آتے جاتے رہے ۔موسم بدلے مگراب کیاگرمیاں اورکیاسردیاں ،ہری سنگھ کی حالت ایک جیسی رہنے لگی۔۔۔۔مُنّا۔۔۔۔نہیں لجا۔۔۔۔ہاں لجا اب ایک چھوٹے سے بچے کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ اس بچے کی شکل جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے لگتا کہ وہ اس کے انگنے میں ادھر ادھر ٹھمکتی گھوم رہی ہے۔ وہ ننھی سی بچی ہے یاسلونا سابچہ۔۔۔۔پتانہیں۔ مگر جب وہ اس کے قریب پہنچتا تووہ کسی کونے میں دبک جاتی ،بس وہ اپناسراسی کونے کی بھیت پرپٹکنے لگتااورنڈھال ہوکردھرتی پر چاروں خانے چت پڑجاتا۔ اب کی گرمیوں میں وہ کسی بچے کاکچھا اٹھالایاتھا۔ رات بھر چبوترے پربیٹھا بیڑیاں پیتا رہا۔ کبھی کچھے کوجھاڑپونچھ کر تہہ کرکے پاجامے کی انٹی میں اڑس لیتا اورکبھی چھپاکر بنیان کی جیب میں رکھ لیتا ۔ رات بھریہی کرتارہا، صبح ٹھاکر تیج بہادر نے دیکھاکہ وہ چبوترے پرنہیں ہے۔ وہ گائوں بھرمیں نہیں تھا۔ بوانے روروکر گھربھردیا۔ باپ نے آس پاس کے تمام گائوں کھنگا ل ڈالے مگراس کا کہیں پتانہ چلا۔ ہفتوں گزرگئے۔ ٹھاکر تیج بہادر کی امیدیں ٹوٹنے لگیں کہ اچانک انھیں رام نگرکاخیال آیا۔
ٹھاکر تیج بہادراسٹیشن پراترکرکھیتوں کوپارکرتے ہوئے رام نگر کی طرف جارہے تھے کہ دوآدمی آتے دکھائی پڑے۔ ’’بھیا کیارام نگرسے آرہے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
تیج بہادرنے گھبراکر پوچھا۔’’رام نگرمیں ہری سنگھ ۔۔۔۔میرامطلب ہے کوئی پاگل۔۔۔‘‘
’’پاگل۔۔۔؟‘‘دونوں ایک دوسرے کامنہ دیکھنے لگے۔
ٹھاکر تیج بہادر نے کہا۔’’تم رام نگر والے ٹھاکر نیک سنگھ کوجانتے ہو؟‘‘
ایک شخص کچھ سوچتے ہوئے اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔’’ارے یہ اس بائولے کی بات کررہے ہیں جس کادایاں ہاتھ جلاہواتھا۔‘‘
’’ہاں ہاں وہی۔‘‘
’’ارے وہ ۔پہلے تووہ کئی دن تک گائوں کی دھرم شالامیں پڑا رہا پھرکچھ بچے۔۔۔‘‘ راہ گیر بولتارہا ،ٹھاکر تیج بہادر بت بنے کھڑے رہے۔ ان کی خشک آنکھیں کھلی تھیں اوروہ سوچ رہے تھے بلکہ دیکھ رہے تھے کہ ہری سنگھ دھرم شالا میں پڑا ہے ۔اس کے گرد بہت سے بچے جمع ہیں ۔مُنّا ایک کونے میں سہما سمٹا کھڑااسے تکے جارہا ہے۔’’مُنّا ۔۔۔۔؟ہاں یہ مُنّا ہی ہے ۔میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تو کیا ہوا۔۔۔؟کیامیں ہری سنگھ کونہیں پہنچانتا ؟ ہری سنگھ کوپہچانتا ہوں تومُنّا کو بھی پہچان سکتا ہوں۔‘‘ ہری سنگھ رک رک کرکہہ رہا ہے۔’’سدا بڑوں کاآدر کرو۔ جھوٹی آن بان اورجھوٹے ریت رواجوں سے بچناسیکھو۔ ہمارے اہنکارہی ریت رواجوں کوجنم دیتے ہیں۔ ‘‘مُنّااس کی گود میں آن بیٹھا ہے۔ سامنے راہ گیر کھڑا کچھ بولے جارہاتھا۔ اس کے شبد اینٹ کے ادّھوں کی طرح ان کی کنپٹیوں پرپڑرہے تھے۔
’’پھرکہاں گیاوہ؟ ‘‘ٹھاکر تیج بہادر کے منہ سے نکلا۔
راہ گیر نے ٹھنڈی سانس لی۔ وہ بچوں سے ان کی مائوں کے نام پوچھتا رہتا تھا۔ اورکسی وید جی کی کہانی سنایا کرتا تھا ۔ لگتاہی نہیں کہ وہ پاگل ہے۔ مگرایک دن تواس نے انرتھ ہی کرڈالا ۔ٹھاکرنیک سنگھ کی بٹیا۔۔۔‘‘
ٹھاکر تیج بہادر بولے۔’’لجا۔۔۔؟‘‘
’’نام توہمیں پتانہیں ۔۔۔ہم توگائوں کے اسکول میں پڑھانے آتے ہیں‘‘۔وہ لمحے بھر کے لیے رکا ،لیکن وہ لمحہ ٹھاکر تیج بہادر کوبہت طویل ہوتامحسوس ہوااورپھرجب اس لمحے کا بلبلہ پھوٹا تو ان کے کانوں میں آواز آئی۔’’وہ باولا ٹھاکر صاحب کے ناتی کو لے کر بھاگ نکلا۔ وہ توکہوکچھ لوگوں نے دیکھ لیا۔ بڑاہوٗ ہلّا ہوامگراس نے بچے کونہ چھوڑا۔ لوگوںنے پیچھے سے اینٹیں اورڈھیلے مارنے شروع کیے۔ پیٹھ سے خون نکلنے لگا مگررکنے کانام ہی نہی لیتاتھا۔ بھگوان کاکرناتھاادھرسے سرپنج آرہے تھے۔ یہ ماجرا دیکھاتو گھما کرلاٹھی اس کے سرپر دے ماری تب جاکر وہ گرا۔‘‘
ٹھاکر تیج بہادرنے آنکھیں موند لیں، اوربندآنکھوںسے دیکھا کہ ہری سنگھ کے سرسے خون بہہ رہا، ناک سے پھوار پھوٹ پڑی ہے اوروہ بچے کوگود میں چھپائے زمین پر پڑا تڑپ رہا ہے ۔
ٹھاکر تیج بہادر کے پیروں کے نیچے زمین کانپنے لگی، آنکھیں کھولیں اورگھبراکر بولے۔’’توکیا وہ مرگیا؟‘‘
’’ہاں وہ تووہیں مرگیاتھا۔ اگرنہ مرتا توبچے کاجانے کیاحال کرتا۔ چھوڑنے کانام ہی نہ لیتاتھا۔ بڑی مشکل سے لوگوں نے اس کے ہاتھ سے بچے کوچھڑایا۔‘‘
ٹھاکر تیج بہادر کادل دھک سے رہ گیا جیسے وید جی کے دروازے پر کسی نے اینٹ کا ادّھادے ماراہو۔ انھیںلگا کہ وید جی کی بیٹھک کادروازہ اکھڑکر دورجاگراہے اوراندرویدجی کی لاش پڑی سڑرہی ہے۔ وہ شخص بولے جارہاتھا’’اس کا کریا کرم بھی ٹھاکرنیک سنگھ نے ہی کیا تھا۔ بڑی آن بان کے ساتھ کیاتھا اس کاانتم سنسکار۔ بڑے ہی نیک آدمی ہیں بے چارے۔‘‘
دوسرا شخص جودیر سے خاموش تھابول پڑا۔۔۔۔’’ارے بھئی وہ پاگل تھوڑی تھا وہ تو جادوگر تھا ۔مرنے کے بعد بھی اس کا جادو چل رہاتھا۔ ‘‘
ٹھاکر تیج بہادر نے اس کے چہرے پرنظریں گڑادیں۔
’’پتا ہے کیاہوا؟‘‘
’’کیا؟‘‘ٹھاکر تیج بہادر کے منہ سے نہیں پورے وجود سے آواز نکلی ۔
’’ٹھاکر جی کاناتی اس کی جلتی چتا۔۔۔۔‘‘
’’جلتی چتامیں کودپڑا؟‘‘
’’نہیں،کوداتونہیں مگراسے جلتا دیکھ کر بلک بلک کررونے لگااورپھر بے ہوش ہوگیا۔‘‘
’’بے ہوش ہوگیا؟ہری سنگھ کابچہ بے ہوش ہوگیا۔ مطلب ہری سنگھ مرانہیں، وہ زندہ ہے۔ عجب لوگ ہیں کہتے ہیں مرگیا۔وید جی کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مرگئے ۔‘‘
ٹھاکر تیج بہادر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگاانھیں محسوس ہوا کہ وید جی کی بیٹھک کادروازہ پوری طرح سلامت ہے اوراس کا ایک پٹ جس پرابھی اینٹ کے ادھے کے سرخ نشان موجود ہیں کھلا ہوا ہے اورہری سنگھ کابچہ بیٹھک سے باہر نکل کراپنے ننھے مُنے ہاتھوں سے ان نشانوں کومٹانے کی کوشش کررہا ہے۔’’بچہ بے ہوش ہوگیا یعنی وید جی زند ہ ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑا رہے تھے ۔دونوں راہ گیروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھااور کچھ سمجھے بغیر وہاں سے چل دیے۔
’’ہری سنگھ زندہ ہے۔۔۔۔‘‘ ٹھاکر تیج بہادر پھربڑبڑائے ۔اس کے بعد انھوںنے اپنی پگڑی اتاری، اس سے منہ کاپسینا پونچھ کراطمینان کی سانس لی اورواپس اسٹیشن کی طرف لوٹ پڑے۔


کھوکھلا پہیا


’ہم تو خدا کے بنائے ہوئے پہیّے ہیں، کھوکھلے پہیے ۔۔۔وہ جس طرح چاہتا ہے گھماتا ہے اوراگر ہم گھومنے سے انکار کریں۔۔۔
انکار؟
انکار کیسے کرسکتے ہیں، ہمیں توگھومتے ہی رہنا ہے، کبھی مرضی سے اورکبھی مرضی کے بغیر۔‘
وہ ہرشام دھندے پر نکلنے سے پہلے یہی سوچاکرتا۔
اس نے لونی لگی کچی دیوارمیں ٹھکی کھونٹی سے پرانا جھولا اتارااور دھندے کے اوزار ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ ہتھوڑی، چھینی، سنڈاسی، چھوٹی سی کدال اورایک آنکڑا۔’’سب ٹھیک ہے۔‘‘
سب ٹھیک تھا مگراس نے ایک بار پھرجھولے میں جھانک کردیکھا۔ غروب ہوتے سورج کی مدھم روشنی میں اوزار دکھائی دیے۔ آنکڑا منہ اٹھائے اسے تک رہاتھا۔ اسے لگاکہ ابھی آنکڑا اُچھل کراس کی قمیص کے دامن میں پھنس جائے گا۔ پھر وہ اور اس کاننگا بدن۔۔۔!سوکھی کھال کے اندر پسلیاں پھڑپھڑانے لگیں۔ وہ سہم گیا اورجلدی سے جھولابند کردیا۔ اب وہ بوڑھا ہوگیا ہے، قبرمیں پیرلٹکائے بیٹھا ہے، اسی لیے آنکڑے سے ڈرجاتا ہے۔
وہ دھندے پرجارہا ہے۔ بغل میں جھولا اورہاتھ میں پتلی چھڑی ہے۔ اسے کدھر جانا ہے کیامعلوم؟ ابھی دوچار گائوں یوں ہی بھٹکے گا پھرآدھی رات ہوجائے گی، کام بن گیا توٹھیک ،ورنہ صبح ہوتے ہوتے گھرواپس۔
گھر؟
گھرتوبسنے سے پہلے ہی اجڑگیاتھا۔ توکیا ہوادرودیوار توسلامت ہیں۔‘
اسے دورکوئی چیزچمکتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب پہنچا تودیکھا کہ ایک چھوٹاسابلب چمک رہا ہے۔
’یہ تو پہیا ہے ،بلکہ گاڑی ہے۔‘
ایک بچے نے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے دوپہیوں میں ڈنڈا باندھ کرگاڑی بنارکھی تھی۔ دونوں پہیوں کے بیچ بیٹری کے دوسیل کھپچیوںمیں ستلی سے لپیٹ کر رکھ دیے تھے اوربجلی کے لمبے تارمیں چھوٹا بلب لگا کرڈنڈے میں لٹکادیاتھا۔
’واہ رے خداہم سچ مچ کھوکھلے پہیے ہیں ،توجس طرح چاہتا ہے ہمیں گھماتا ہے۔‘
اسے یادآیا بچپن میں بنجاروں والے کنویں پرایک پہیا ملاتھاجوبالکل کھوکھلا تھا۔ عام پہیوں سے الگ پائپ کابنایہ پہیا شاید کسی پرانی مشین کابڑاپرزہ ہو،مگریہ بات اب تک سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ وہ کھوکھلا کیوںتھا، کیا ہمیشہ سے کھوکھلا تھا؟ کھوکھلا تھا بھی یانہیں؟یاپھر۔۔۔!
اس نے دیکھا کہ بچہ بلب لگی گاڑی کوبہت آہستہ آہستہ ڈھکیل رہا ہے۔
’ارے اس میں تولوہے کے دوتاربھی بندھے ہیں۔‘
بچے نے ایک تارکھینچا ۔گاڑی کے دونوں پہیے ایک جانب مڑگئے۔دوسراتارکھینچا تو گاڑی رک گئی۔ یہ بریک تھا۔
’ہاتھ سے ڈھکیلنے پر اوروہ بھی اتنا آہستہ، پہیے کوبریک کی ضرورت؟‘
یہ بات اس کی سمجھ سے باہر تھی۔
’کیایہ سمجھنے کے لیے بچہ بننا پڑے گا؟‘
’مگرکیوں؟کیاوہ کبھی بچہ نہیںتھا؟‘
بچپن میں جب وہ زنگ آلود لوہے کے کھوکھلے پہیے کومکاکے ٹھٹھیرے سے ڈھکیلتے ہوئے بہت تیزدوڑتاہوا مدرسے سے گھرواپس آتا تواس کے پہیے کو نہ توکہیں بریک کی ضرورت پڑتی اورنہ ہی وہ آج کی طرح دھیمے چلتا۔ اگرکبھی وہ اس پرانے زنگ آلود کھوکھلے پہیے کوآہستہ چلانے کی کوشش کرتا بھی توپہیا دوچار چکرلے کرگرجاتا۔ پہیے کے سہارے وہ کتنی جلدی گھرواپس آجاتا تھا۔ جب تھوڑا بڑاہواتو اس کے بعد کی نسل نے سرکنڈے یا مکّا کے ٹھٹھیرے کے بجائے لوہے کے آنکڑے بنالیے اورسب پہیے دھیمے چلنے لگے۔ جب جوان ہوا توپہیوں میں آنکڑے اس طرح جڑدیے گئے کہ پہیے اپنی فطری رفتار کھوبیٹھے۔۔۔ اوراب جب کہ وہ بوڑھا ہے ، موڑنے اوربریک لگانے کے لیے تاربھی کس دیے گئے ہیں۔ اب اسے بچوں کے ان پہیوں سے نفرت ہونے لگی۔ پہیوں سے ہی کیوں، قصبے کی زمین سے اگتی ہوئی نئی نئی بلند عمارتوںسے بھی تواسے نفرت ہے۔ جب عمارتیں کم تھیں تو پہیے تیز چلتے تھے اورجب پہیے تیز چلتے تھے تواس کادھندا بھی اچھاچلتا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد ہے، ایک روز وہ پوکھرکے کنارے اداس بیٹھاتھا کہ شکورا تیلی کاجنازہ گزرا۔ وہ اسی طرح بیٹھارہا۔ جب جنازہ قبرستان کے احاطے میں داخل ہوگیا توایک عمررسیدہ تجربے کارشخص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
’’کسی دھندے سے لگا ہے ؟‘‘
بولاکچھ نہیں بس نفی میں گردن ہلادی۔
’’چل اٹھ، یہ لے جھولا۔‘‘
وہ اٹھا، شکوراتیلی کی قبرکھول کرتختہ ہٹایااوراس میں آنکڑا ڈال دیا ۔چند ہی لمحوں میں بہت قیمتی اورملائم کپڑااس کے ہاتھوں میں لپٹا ہواتھا۔ پھرکیاتھا ،وہ کفن کھسوٹنے میں ماہر ہوگیا۔ رات ہی رات میں دس دس کوس کے مردوں کے کفن کھسوٹ لاتا۔
’’تیرانام کیا ہے؟‘‘ اس نے گاڑی والے بچے سے پوچھا۔
بچے نے جواب دیا۔’’سلیم‘‘
’’توحاجی وحیدکاناتی ہے؟‘‘
بچہ کچھ کہے بغیر ،آہستہ آہستہ گاڑی ڈھکیلتا آگے بڑھ گیا۔
’حاجی وحید!‘ ہاں وہی وحیدپہلوان ،جن کی اب دومنزلہ عمارت ہے، یہیں ان کاکچامکاتھا۔ اسارے میں اپنے چیلوں کو لیے بیٹھے رہتے۔ ہروقت کچھ نہ کچھ کھانا پینا چلتا رہتا۔ کبھی بادام، کبھی دیسی گھی میں بناانڈے کی زردی کاحلوا۔ دیسی گھی تو وہ پانی کی طرح اوک سے پی جاتے۔ پھرانھوںنے اسارے کی جگہ بیٹھک بنوالی اوردیسی گھی پینا بند کردیا ۔جب پچھلا کوٹھاتڑواکر دوکمرے بنوائے توزردی کاحلوابھی بند ہوگیا۔ اورجب ان کی لکڑی کی ٹال آرامشین کاکارخانہ بنی تو چیلے چپاٹے غائب۔ اب ان کے بچے شہرمیں پڑھتے تھے اوروہ بیٹھک میں پڑے کھانستے رہتے تھے اورایک دن ان کاانتقال ہوگیا تو اس نے کفن چرانے کے لیے ان کی قبرمیں آنکڑا ڈالا۔
’’آج تو بہت قیمتی کپڑاملے گا۔ اس دفعہ کپڑا رام سروپ بزاز کے ہاں نہیں بیچوںگا۔ بے ایمان بہت کم پیسے دیتا ہے۔ مگر رام سروپ بھی کیا کرے، اب قبرسے نکلتا ہی کتناباریک اورخراب کپڑا ہے۔ جس دن اخبارمیں یہ خبر چھپی کہ ہمارا قصبہ تحصیل ہوگیا ہے ،اس دن دل شاد پٹواری کی قبرسے کتنا مہین کفن نکلاتھا۔ رام سروپ نے تواٹھا کر پھینک دیا تھا ۔ مگر پھر مان ہی گیا۔ آخرتھا تواسی کی دکان سے خرایدا ہوا۔ لیکن حاجی وحید کے بیٹوںنے توبڑاقیمتی کفن پہنایا ہوگا۔‘‘
اس نے چھڑی میں آنکڑا کسا اورتختہ ہٹاکر قبرمیں ڈال دیا۔ دوتین جھٹکے مارے پھرآہستہ آہستہ کھینچا۔ دیکھا توکپڑا کیا تھا چیتھڑا تھا۔
’رام سروپ تو دوآنے کو بھی نہیں پوچھے گا۔‘
اس وقت اسے یادآیا کہ استاد نے بتایا تھا ۔ بہت دنوں کی بات ہے جب اس قصبے میں سب مکان کچے تھے اوربرسات میں ہرآدمی کاچھپر ٹپکتا تھا ۔اس وقت استاد کے دادا نے جس قبرسے کفن چرایا تھا، اس میں سونے چاندی کے تاروں سے بناایک دوشالہ نکلاتھا۔
بچہ گاڑی لے کر حاجی وحید کی دومنزلہ عمارت میں گھس گیا۔ کافی اندھیراہوچکا تھا۔’ابھی اسے کئی گائوں گھومنا پڑے گا، شاید کہیں موت ہوئی ہو۔‘ خیرات پور، نارائن پور اور گنگا گڑھ ہوتاہوا جب ویرپورکے قبرستان کے قریب پہنچا توقبرستان میں روشنی نظرآئی ۔سکون کی سانس لی اورقبرستان کے باہر پلیا پربیٹھ گیا ۔ لوگ مردے کو دفن کرکے واپس جارہے تھے ۔ اس نے چھپ کر واپس جاتے لوگوں کودیکھا۔ ان کے چہروں پر نہ غم کے آثارتھے اورنہ موت کاخوف۔
’یہ کون سی جگہ؟ یہ سچ مچ ویرپورکاقبرستان ہے یا وہ کسی اوردنیا میں آن بھٹکا ہے۔‘
چاروں طرف نظریں گھمائیں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
’’کوئی بھی جگہ ہومجھے کیا؟ ہے توقبرستان ہی ۔ اورقبرستان بھی نہ ہو تو کیاہوا، قبرتو ہے ، جس میں ابھی ابھی کچھ لوگ مردے کودفنا کرواپس گئے ہیں۔‘‘
’چنبیلی مہک رہی ہے، لگتا ہے امیروں کاقبرستان ہے، اورجولوگ دفنا کرگئے ہیں ان کے کپڑوںسے بھی عجیب عجیب خوشبوئیں نکل رہی تھیں۔‘
اس نے جھولے کوٹٹولا، آنکڑا نکال کرچھڑی میں لگایا اورتازہ قبر کی تلاش میں چل دیا۔ قبرملی تواس پرببول کی ٹہنی کے بجائے گلاب کی شاخ اڑسی ہوئی تھی اور مٹی کیوڑے سے مہک رہی تھی۔ اس نے کدال نکالی اورقبر کے ایک کونے کو کھودنے لگا۔ وہ جتنا کھودتا خوشبو تیز ہوتی جاتی۔ اچانک ’’ٹن‘‘سے آواز ہوئی۔ وہ اچھل گیا۔ اسے لگا کہ کدال لوہے کے کھوکھلے پہیے سے جالگی ہے۔ کدال پھرماری ،آوازاورتیز ہوئی۔ وہ دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’اے خدا میں کہاں آن پہنچا ہوں؟ یہ لوگ کون تھے جومردے کودفن کرگئے ہیں اوریہ آواز۔۔۔یہ آواز کیسی ہے ، کیا مٹی پتھراگئی ہے یامیری عقل پرپتھر پڑگئے ہیں ۔‘‘
اس نے ہمت کی اورایک بار پھر کدال ماری ۔اب اس کی سمجھ میں آگیا کہ تختے کی جگہ پتھر کی پٹیا رکھی ہے۔
’آج تو برسوں بعد حسرت پوری ہوگی، کسی امیر کی قبر ہے، شاید سونے چاندی والا دوشالہ بھی ہو۔‘
اس نے ہاتھ سے پتھر کوکھسکا نا چاہا مگرپتھر بہت بھاری تھا۔’وہ یہی توچاہتا ہے کہ پتھر بہت بھاری ہو۔ ہلکا پھلکا پتھر رکھنے والے مردے کو دوشالہ کیااڑھائیںگے۔‘
اب اس نے جھولے سے چھینی ہتھوڑی نکال کرپتھر میں چھیدکرنا شروع کردیا۔ مٹی میں دبے پتھر کوکاٹنے کی بھنچی بھنچی آواز قبرستان کے سکوت کوتوڑرہی تھی۔ جب آواز تیز ہوتی ہے تووہ کانپ جاتا ہے۔
’’کون؟‘‘
’ارے یہ تومیرا وہم ہے۔ یہاں اندھیرے کے سواکون ہوسکتا ہے۔ بستی یہاںسے کوس بھردور ہے۔‘
پتھر بہت موٹا ہے ۔وہ پسینے میں شرابور ہوچکا ہے۔ قبرکی ساری مٹی کھود کرپتھر ہٹا دینا زیادہ آسان ہے۔
’مگرپھاوڑا۔۔۔؟‘
اس نے اپنے چاروں طرف دیکھا کہ شایدگورکن اپناپھاوڑا بھول گیا ہو۔ کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ایک سیاہ غار۔۔۔ آنکھوں کے سامنے گول گول دائرے تیرنے لگے اورسرچکرانے لگا۔ پھراس نے کدال اٹھائی اورپوری طاقت سے پتھر کے کونے پر دے ماری ۔پتھر چٹخ کرٹوٹ گیا۔ اس نے آنکڑے والی چھڑی آڑے ترچھے بڑے سے چھید کے اندرڈال دی۔ مگراس کے پائوں الٹے پڑرہے تھے۔ بیری کے سوکھے جھاڑنے اسے آدبوچا۔
’اف اتناخوف؟آخربیس سال سے یہی کام کررہا ہوں۔‘
اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔ دل کوتسلی دی۔
’یہ توخوشی سے کانپ رہے ہیں، خوف کیسا۔‘
وہ کپکپاتے ہاتھوںسے آنکڑے میں کفن پھنسانے کی کوشش کرنے لگا۔ آنکڑا باربار کسی چیز میں لگ کر پھسل جاتا ۔
’شاید دوشالہ بہت دبیز ہے۔‘
اس نے بڑی مہارت کے ساتھ زورلگاکر آنکڑے کے منہ کوکپڑے میں اٹکانے کی کوشش کی ۔محسوس ہوا کہ کوئی موٹی سی چیز آنکڑے میں پھنس گئی ہے۔ اس نے کھینچنا چاہا مگرآنکڑا نہیں کھنچا۔
’بہت موٹاکپڑا ہے۔‘
پھرزورسے جھٹکادیا۔ اب آنکڑا پتھر کے چھیدسے باہرآچکاتھا۔۔۔۔
آنکڑے کوچھوا‘
تواس کے ہاتھ میں کوئی لِجلِجی سی چیز آگئی۔ یہ مردے کے جسم کی نچی ہوئی کھال تھی۔ وہ چیخ پڑا اوربے تحاشا بھاگنے لگا۔ وہ اپنی سمت بھول چکا تھا ۔وہ کب سے بھاگ رہا ہے؟برسوں سے ۔۔۔صدیوںسے ۔۔۔؟یہ تویاد نہیں مگراب وہ جہاں آن پہنچا ہے ۔جگمگاتی روشنیوں والاکوئی بہت بڑاشہر ہے ۔اسے دورسے دھواں اگلتی چمنیاں نظرآرہی ہیں۔ چمنیاں لوہے کی ہیں ،مگر کھوکھلے پہیے والے زنگ آلود لوہے کی نہیں۔
اب وہ شہر کے باہر عیسائیوں کے قبرستان کے قریب کھڑا ہے اوربری طرح ہانپ رہا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔ اورجب آنکھیں کھولیں تودیکھا کہ شہر کی جانب سے گیس کی لالٹینوں کے ساتھ برات آرہی ہے۔
’برات؟ نہیں یہ توعیسائیوں کاجنازہ ہے۔‘
اسے اپنے استاد کی بات یادآئی۔
’’جب کوئی عیسائی مرتا ہے تواسے سونے کی زنجیر ،گھڑی اورقیمتی کپڑے پہناکر تابوت میں بند کیاجاتا ہے۔‘‘
’کیاسچ مچ آج بھی سونے کی زنجیر اورگھڑی پہناتے ہیں عیسائی لوگ؟‘
’ہاں کیوں نہیں۔‘
اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چمکتا ہوا ایک بڑاستارہ نظرآیا۔
’ارے یہی توہے اپنی قسمت کاستارہ ۔ کتنے دنوں بعد چمکا ہے۔‘
اطمینان کی سانس لی اورقبرستان کے ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
’ان لوگوں کے چہروں پر خوف کیوں ہے؟‘
’شاید موت کاخوف ہو۔‘
’مگرکسی کے چہرے پر رنج والم کانام ونشان بھی نہیں۔‘
’استاد نے بتایاتھا کہ عیسائی کسی کی موت پرروتے پیٹتے نہیں ہیں۔ بس کا لے کپڑے پہن لیتے ہیں۔‘
اس نے دیکھا کہ قبرمیں اتارتے وقت تابوت ایک طرف کوجھک گیا ہے۔
’شاید تابوت کے اندربہت بھاری بھرکم مردہ ہے جوقیمتی سامان کے بوجھ سے اِدھراُدھر لڑھک رہا ہے۔‘
اب تابوت مٹی سے ڈھکا جاچکا تھا اورسینے پر کراس کانشان بناتے لوگ قبرستان سے باہر نکل گئے تھے مگر دوچار لوگ اب بھی وہاں کھڑے تھے۔
’ارے یہ لوگ اس طرح چپکے چپکے کیاباتیں کررہے ہیں؟‘
اس نے کان لگاکر سننا چاہامگرباتیں اتنی آہستہ ہورہی تھیں کہ شاید بات کرنے والا بھی اپنی بات نہیں سن پارہاتھا ۔ سننے کی بہت کوشش کی مگر وہ صرف اتنا سن پایا
’’اب کوئی فکر کی بات نہیںسب یہی سمجھیں گے کہ۔۔۔‘‘
پھران میں سے ایک نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکال کرسامنے کھڑے شخص کودیے۔ دوسرے نے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی باقی لوگ ادھر ادھر چلے گئے۔ وہ جلدی سے قبرکے پاس پہنچ گیا اورکدال سے مٹی کھودنے لگا۔ کدال سے کھود کھود کر اس نے قبر کی ساری مٹی کوپھوکا کردیاتھا۔ کچھ ہی دیرمیں تابوت نظرآگیا۔ مٹی ہٹائی اورتابوت کوچھوکر دیکھا۔ اس پرپیتل کی پتیاں جڑی ہوئی تھیں۔
’’اُف تابوت بھی اتنا قیمتی!‘‘
اس کے منہ سے نکلا۔ اپنی آواز کی باز گشت اجنبی آوازوں میں تبدیل ہوکراسے سنائی دی تواس نے چونک کرچاروں طرف دیکھا اور جلدی سے تابوت کی ایک کیل اکھاڑ دی۔ پھرکیل کوآنکھوں کے قریب لاکر اس طرح دیکھنے لگا کہ کہیں یہ کیل سونے کی تونہیں ۔مگررات کی تاریکی میں اسے کچھ نظرنہ آیا۔
’اندر کتناخوبصورت مردہ ہوگا۔۔۔تندرست ،صحت مند، گھڑی اورسونے کی زنجیر پہنے اور دوشالہ۔۔۔نہیں بھی ہواتو سونے کی زنجیر توہوگی ہی۔۔۔جب وزیرخاں حج کر کے لوٹے تھے توانھوںنے ایک ہاتھ کے بجائے دونوں ہاتھوں میں گھڑیاں پہن رکھی تھیں اورپھرعیسائیوں کی توبات ہی کچھ اورہے ، چارچار گھڑیاں بھی پہنا سکتے ہیں مردے کو۔‘
وہ ہاتھوں میں چارچار گھڑیاں پہنے، گلے میں سونے کی موٹی زنجیر ڈالے اورسونے چاندی کے تاروں سے بنا، نگینے جڑا، بھاری دوشالہ اوڑھے بڑے بڑے شہروں کی چوڑی سڑکوں پر ٹہل رہا ہے۔
بڑے سے بڑا سنار بھی اس کی زنجیر اوردوشالہ خریدنے کوتیار نہیں ۔خریدے بھی کیسے؟ کس کے پاس ہے اتنا روپیہ؟ اتنا قیمتی سامان توکوئی راجا ہی خرید سکتا ہے۔ اسے لگا کہ پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔
’’پولیس!‘‘
’’نہیں۔‘‘
اس نے دیکھا کہ نہ اس کے کندھوں پردوشالہ ہے اورنہ گلے میں سونے کی زنجیر۔ وہ تابوت کے پاس تنہا بیٹھاتھا۔ سامنے زمین پر قبرکی مٹی کے بچے کھُچے ڈھیلے بکھرے پڑے تھے اورآسمان پر بڑا تارہ چمک رہا تھا۔ اس نے بہت احترام سے تابوت پرہاتھ پھیرا ۔پیتل کی پتر کے نقوش ابھرے محسوس ہوئے تواس کی اکھڑی ہوئی سانسیں قابومیں آنے لگیں اوروہ انگلیوں کوڈھیلا کرکے دھیرے دھیرے تابوت کوسہلانے لگا۔
’اب دیرکرنے سے کیافائدہ ۔۔۔کھل جاسم سم ۔‘
اس نے تابوت کے اوپر کاتختہ ہٹایا اورجلدی سے مردے کودونوں ہاتھوں سے پکڑکر اٹھانا چاہا مگرجب اس کے ہاتھ مردے کے بجاے تابوت کے نچلے تختے پر جالگے تو وہ لرزگیا۔ تابوت خالی تھا۔ بالکل خالی۔۔۔وہ چیخا اورپھرچکرا کر اس طرح گرگیا جیسے کسی نے اسی کی کدال اس کے سرپردے ماری ہو۔
وہ اتنا ہلکا کیوں ہوگیا ہے؟ شاید اس کے جسم سے بہت کچھ نکال کرپھینک دیاگیا ہے۔ وہ اندرسے بالکل خالی ہوچکا ہے۔ اس کی پسلیاں گلنے لگی ہیں۔ ایک ایک کرکے سب گلتی جارہی ہیں، گوشت بھی سڑچکا ہے اورکھال پرزنگ لگ گیا ہے۔ اب وہ بالکل کھوکھلاہوچکا تھا۔
’اے خدا جوباہر ہے وہی اندرہے، اورجو۔۔۔‘
اس نے سوچا اوروہاں سے بھاگنے کے لیے زورلگایا ۔وہ بھاگ تونہ سکا مگرزمین پر لڑھک پڑا اوراتنا تیز لڑھکنے لگا کہ اگررکنا بھی چاہے تونہ رک سکے۔ وہ لڑھکتا رہا۔ چھوٹے بڑے آڑے ترچے راستوں پرلڑھکتا رہا۔
اسے محسوس ہوا کہ وہ زنگ آلود لوہے کا کھوکھلا پہیا ہے اورکوئی شخص اسے مکّا کے ٹھٹھیرے سے مار مارکر تیزی سے لڑھکا رہا ہے۔ وہ لڑھکتا رہا، اس مردے کی مانند جوتابوت میں تھا ہی نہیں۔





باغ کا دروازہ


گرمیوں کی تاروں بھری رات نے گھر کے بڑے آنگن کوشبنم کے چھڑکائو سے ٹھنڈا کردیاتھا۔ جیسے ہی دادی جان نے تسبیح تکیے کے نیچے رکھی نوروز کود کران کے پلنگ پر جاپہنچا ۔ ’’دادی جان جب سبھی شہزادے باغ کی رکھوالی میں ناکام ہوگئے تو چھوٹے شہزادے نے بادشاہ سلامت سے کیا کہا۔۔۔؟‘‘
’’نوروزؔتواب بڑاہوگیا ہے ۔کہانیاں سننا چھوڑ۔۔۔‘‘
’’دادی جان یہ کہانی کہاں ہے ، یہ توہمارے ہی شہر کے باغ کاقصہ ہے۔ باغ کوٹھی والاباغ۔‘‘
’’ہاں میرے لال، یہ ہمارے شہر کی بھی داستان ہے اوران شہروں کی بھی جوہم نے نہیں دیکھے ہیں۔‘‘
’’کیاچھوٹا شہزادہ بھی باغ کی رکھوالی میں ناکام ہوجائے گا؟‘‘
’’اچھاسُن۔۔۔لیکن ہنکارے بھرتے رہنا۔‘‘
’’توچھوٹے شہزادے گل ریز نے بادشاہ سلامت سے کہا۔ باباحضور مجھے بھی ایک موقع دیجیے۔ بادشاہ نے لختِ جگر پر نگاہ کی اوربولے ۔نہیں جان پدر، شرط مشکل ہے اورتوعزیز ۔ اگرتیرا پہرابھی ناکام ہوا تواس وطن کے آخری ستارے کوبھی شہربدر ہونا پڑے گا۔ ۔شہرخالی ہوچکا ہے ۔تیرے پانچوں بھائی بھی میری آنکھوں کوویران کرگئے ہیں۔ باغ پر کسی دیوکاسایہ ہے جو سخت نگہبانی کے باوجودصبح ہوتے ہوتے سارے چمن کواجاڑدیتا ہے۔ پہرے کی کامیابی پر آدھی بادشاہت دینے کاوعدہ ہے۔ مگرتجھے کیا؟اے میرے خوش بخت فرزند توٗ، توپوری سلطنت کامالک ہے۔ نہیں بابا حضور، میں نے بیڑااٹھایا ہے، اب آپ حکم دیجیے۔ جیسی تیری مرضی ،اوربادشاہ نے شہزادے گل ریز کورخصت کیا۔ شہزادے نے اپنے ساتھ ایک چاقو اور شیشی میں پسی ہوئی سرخ مرچیں لیں اورباغ کی سمت روانہ ہوا۔ باغ کے دروازے میں داخل ہو، دروازہ بند کر، پہرہ دینے لگا۔ جب رات آدھی ہوئی اورجھپکیاں آنے لگیں تواس نے چاقو نکال ، اپنی کنّی انگلی تراش، اس میں مرچیں بھرلیں۔ نیندآنکھوں سے غائب ہوگئی اور سحرنمودار ہونے لگی۔ اسے یادآیا کہ عرصہ ہوا اس باغ میں ایک فقیرنے ڈیراڈالاتھا اورکسی بات پر خوش ہوکر اس قلندرنے شہزادے کوبتایاتھا کہ اس باغ پرایک دیوکاسایہ ہے۔ جوبھی اس کی پاسبانی کرے گا وہ پوپھٹتے پھٹتے سوجائے گا۔ اگر کسی صورت جاگتارہ جائے تودیوپرفتح پائے گا۔ سوچ ہی رہاتھا کہ دیکھتا کیا ہے ،ایک لحیم شحیم دیوباغ کی فصیل لانگ کرداخل ہوتا ہے اورپھولوں کی کیاریوں کوروندتا ہوا پھل داردرختوں پرچڑھ جاتا ہے۔ بس شہزادے نے دیکھااورپلک جھپکتے ہی اس کی دُم سے لٹک گیا۔ دیوڈال ڈال توشہزادہ پات پات ۔ دیونے کہا،میں سیر ہوں، شہزادہ بولا، میں سواسیر۔ دیوپلٹا ،شہزادہ کود کراس کی پیٹھ پر ۔۔۔‘‘
’’سوگیاکیا؟‘‘
’’نہیں دادی جان‘‘
’’اچھاتوسن۔‘‘اورپھروہ بہت دیرتک دیواور شہزادے کے دائو پیچ بیان کرتی رہیں۔ ’’آخر کاردیوکی ہارہونی تھی سو ہوئی۔ بولاتو جیتامیں ہارا۔ اب مجھے چھوڑ، اس کے عوض تجھے سات بال دوںگا، جووقت ضرورت تیرے کام آئیں گے۔ جب مصیبت پڑے توایک بال جلادینا، باقی بُرے وقت کے لیے رکھ لینا۔‘‘
یہ کہہ کر دادی جان نے اطمینان کی سانس لی، اس کے بعد سانسوں میں آواز پیدا ہونے لگی اوروہ سوگئیں۔ نوروز رات کوکہانی کی اگلی کڑی سنتااوردن میں باغ کوٹھی کے چکرلگاتا۔ یہ سلسلہ کئی روز تک چلتارہا، پھرایک دن نوروزنے دادی جان سے کہا۔
’’آج کہانی پوری کرکے ہی سوئیے گا دادی جان۔‘‘
’’شہزادے نے بادشاہت نہیں لی اوراپنے بھائیوں کی تلاش میں راج پاٹ چھوڑ کر چل پڑا۔ بھائی ملے مگر مارے حسد کے اسے سائیس بناکر رکھا۔ بھائی سویرے نکلتے شام کو لوٹتے اور بہت فکرمند رہتے۔ ایک شب بھائی سمجھے وہ سوگیا ہے مگروہ جاگ رہاتھا، بھائیوں کو کہتے سُنا کہ آج پھرمنادی ہوئی ہے کہ جو شخص برج کی محراب میں بیٹھی شہزادی گلشن آراکو محل کے پہلے دروازے سے پھولوں کی گیند مارنے میں کامیاب ہوجائے گا وہ اسی کے ساتھ شادی کرے گا۔ اشتیاق بڑھا، چھپ کر بھائیوں کے پیچھے پیچھے چل دیا اور یہ ماجرادیکھا کہ دوردراز ملکوںسے آئے شہزادے اپنی اپنی قسمت آزمارہے ہیں مگرشہزادی جس بارہ دری میں بیٹھی ہے وہاں ہواکچھ اس رخ سے چلتی ہے کہ شہزادی تک گیند کاپہنچانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسے طلسمی بالوں کاخیال آیا۔ ایک بال جلادیا ،سبز گھوڑا سبز جوڑا تیار اورپھولوں کی ایک گیند جوشہزادے کے اشارے کی تابع دار تھی، ہاتھ میں آگئی۔ کامیابی ملی ،مگروہ گھوڑے کولے کرنظروںسے اوجھل۔ دوسرے دن سرخ جوڑا، سرخ گھوڑا اورگیند۔ گل ہزارہ کی گیند شہزادی گلشن آرا کے رخ روشن کو چھوتی اوربکھرجاتی۔ یہ سب اس طرح ہوتاجیسے بجلی کوند گئی ہواور دیکھتے ہی دیکھتے شہزادہ نظروں سے غائب۔ ساتویں روز سفید جوڑاپہنے سفید گھوڑے پرسوار ہوکرجب وہ گیند مارکرفرارہواتو شہزادی کے منصوبے کے مطابق اس کے داہنے پیرکومحل کے سپاہیوں نے زخمی کردیا۔ بس شہر بھر میں زخمی پیروالے شخص کی تلاش شروع ہوئی اورایک سرائے کے پچھواڑے سائیس کے بھیس میں شہزادہ گرفتار ہوا۔ شہزادی کی ضد کے نتیجے میں شادی توہوگئی مگربادشاہ سلامت کوکم رتبہ رشتہ پسند نہیں آیا۔ دونوں کودودھڑی اناج اورایک اشرفی دے کرسلطنت سے نکال دیا۔ ان دونوں نے ایک دنیابسائی۔دنیابسانے کاوہی پراناطریقہ۔ ایک اشرفی کے کچھ چاول، کچھ ریشم کے دھاگے ،کچھ زری کے تاراورکچھ اوزار۔ چاول کے دانے میدان میں ڈالے ۔ رنگ برنگی چڑیاں آئیں۔ پرٹوٹے، ان کوسمیٹ کر پنکھا بنایا۔ شہزادہ بازارمیں بیچ آیا۔ پھرچاول کے دانوں، ریشم کے دھاگوں اورزری کے تاروں کی تعداد بڑھتی گئی ۔ہرروز کئی کئی پنکھے تیارہونے لگے۔ پھر فرشی پنکھے، چھت سے لٹکنے والے پنکھے اور دیوار کے قالین بننے لگے۔ کاروبار بڑھاتوایک گڑھی نما قلعہ بنوایا، یوں ان کی دنیاآباد ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کی اورپھر ایک باغ لگایا۔‘‘
’’بس دادی جان ۔آگے کاقصہ مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’تجھے کیسے معلوم؟‘‘
’’ہمارے ہی شہرکی توکہانی ہے۔ باغ کوٹھی کے دربان شیزفام نے مجھے سنائی تھی۔ اوردادی جان وہ کہانی میں نے رات میں نہیں دن میں سنی تھی۔‘‘
دادی جان کواطمینان ہوگیا، وہ سوگئیں لیکن نوروزؔجاگتارہا اورآج وہ برسوں بعد سوچتا ہے کہ اس نے دادی جان سے جھوٹ کیوں بولاتھا۔ کیاوہ آگے کی کہانی سننا نہیں چاہتا تھا؟ مگرکیوں؟ شاید اس لیے کہ گلشن آرا کے لگائے ہوئے باغ کی کہانی وہ سننا نہں دیکھنا چاہتاتھا۔ اورباغ لگتے اس نے اپنی آنکھوںسے دیکھااوراب اجڑتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے۔ یہ باغ ہزاروں سال میں لگ پایا تھا ،نوروزؔ کی آنکھیں اس کی گواہ ہیں ۔ ہزاروں سال پرانی آنکھیں ۔ایک ایک پودا اس کے سامنے لگا ہے اورایک ایک پھول اس کی آنکھوں کے آگے کھلا ہے۔ یہ باغ نہیں مختلف پھولوں سے بنی شہزادہ گل ریز کی گیند ہے جوگلشن آرا کے رخ روشن سے ٹکراکر بکھرگئی ہے۔
نوروزؔ کادنیادیکھنے اور زندگی کوسمجھنے کایہ طلسمی اندازواقعات کویوں دیکھتا ہے ۔ ایک روز کاواقعہ ہے کہ شہرمیں نٹوں کی ایک ٹولی داخل ہوئی۔ ایک نوجوان نٹ اس کی نہایت ملوک نٹنی نے اعلان کیا کہ وہ نقلی پرلگاکر دوکوس تک اڑسکتے ہیں۔ بس لوگ جمع ہونے لگے۔ اس کی خبر گڑھی کی بالائی منزل پرشہزادی گلشن آرا کے کانوں تک پہنچی ۔ شہزادی نے نٹ کے اس جوڑے کو بلوا بھیجا ۔ کرتب شروع ہوا۔ مشرقی برج سے چھاج کے نقلی پرلگاکر دونوں اڑے۔ دوکوس کادعویٰ تھا ، ڈھائی کوس تک اڑتے رہے اورپھر جب گرے توخداکاکرنا ،دونوں نے وہیںدم توڑدیا۔ شہزادی گلشن آرا پالکی میں سوار ہوکر جب وہاں پہنچیں تودیکھتی کیا ہیں کہ وہاں نہ کوئی نٹ ہے اورنہ نٹنی۔ لاش کاکہیں پتانہ تھا۔ بس دوپھول کھلے ہوئے تھے۔ رنگ ان کاایساکہ دنیامیں مثال نہیں۔ شہزادی گلشن آرانے حکم نامہ جاری کیاکہ یہاں ایک ایساباغ لگایا جائے جس میں دنیابھر کے نایاب ونادر پھول ،طرح طرح کے پھل اوربے شمارخوبصورت درخت ہوں۔ باغ کی چہاردیواری ایسی ہوکہ جس میں ہزار دروزاے ہوںاورسارے دروازے سبھی کے لیے کھلے رہیں۔ باغ کی پہرے داری گل صد برگ کریں اوران کی سواری گل گوں ہو۔ شہزادی کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ پہلے تمرہندی، برگد، پیپل اور املتاس کے درخت لگائے گئے اورپھردرمیانی روشیں مولسری، آبنوس اورصنوبر کے درختوں سے آراستہ کی گئیں۔ باغ کے وسط میں ایک عالی شان عمارت تعمیر کی گئی جوباغ کوٹھی کے نام سے مشہور ہوئی ۔ لوگ مختلف ممالک سے آتے، اپنے ساتھ نایاب قسم کے پودے لاتے اورباغ کوٹھی میں قیام کرکے محسوس کرتے گویاباغ میںنہیں شہزادی گلشن آراکے دل میں قیام پذیر ہوں۔ کچھ آنے والے کوہِ قاف کوعبور کرکے آئے توکچھ سمندرکے راستے۔ دوردورتک اس گل کدے کی شہرت تھی۔ لوگوں کی آمد کاسلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ اب گل دائودی ، گلِ رعنا اورگلِ آفتاب کے ساتھ ساتھ کرسمس ٹری، پام کے درخت اورمنی پلانٹ کی بیلیں بھی اس چمن زارمیں دکھائی دینے لگی تھیں۔
پھرکیاہوا، کیسے ہوا کہ باغ اجڑنے لگا۔ نوروزؔ بستر پرلیٹا سوچ ہی رہاتھا کہ گلیا رے میں ایک شوراٹھا۔ بیٹھک کی کھڑکی کھول کر دیکھا کہ باغ کی پاسبانی کاعزم لیے کچھ لوگ نعرے لگاتے گلی سے گزررہے ہیں۔ وہ بھی چبوترے پرنکل آیا اورہجوم کے سنگ سنگ چلنے لگا۔ پھراس نے جانا کہ بھیڑ باغ میں داخل ہوچکی ہے اوروہ تنہا دروازے کے باہر کھڑا رہ گیا ہے۔ نظریں اٹھائیں تو پایا کہ اب فصیل مزید اونچی کردی گئی تھی اور اس کے تمام دروازے پتھروں سے چُن دیے گئے تھے۔صرف صدردروازہ کھلا تھا، جس پرسیاہ وردی پہنے سپاہی آبنوس کے درختوں کی طرح جامدوساکت کھڑے تھے۔ اندرجانے کی کوشش کی، پراسے یہ کہہ کرروک دیاگیا کہ ابھی اجازت نہیں۔ کارروائی شروع ہوچکی ہے۔
دوسرے روز سورج نکلنے سے پہلے ہی وہ باغ کی طرف روانہ ہوگیا۔ صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ جہاں مولسری اورصنوبر کے شجرتھے وہاں ببول کی کانٹے دارجھاڑیاں اگ آئی ہیں۔ حوض جس میں ہرپل فوارہ چلتا رہتا تھا اسے بارش کے پانی اورکائی کی پرتوںنے مینڈکوںکامسکن بنادیا ہے۔ سامنے نگاہ کی توکھلاکہ باغ کوٹھی کے کھنڈر دم سادھے کھڑے ہیں۔ کوٹھی کی بلند محراب کی طرف گردن اٹھائی تو اندھیرے میں ڈوبے آسمان کا عکس نظرآیا ۔ محراب ٹوٹ کر گرچکی تھی اورستون سرنگوں تھے۔ وہ بڑھتا رہا اور آگے بڑھتا رہا کہ ایک پتھر سے ٹکراکر اوندھے منہ آگرا۔ کانپتی انگلیوں سے ٹٹولا تو دوقبروں کے نشان پائے اسے معلوم ہے یہ قبریں شہزادہ گل ریزؔ اورشہزادی گلشن آرا کی ہیں۔ اب سورج آسمان پرپائوں جماچکا تھا۔ صدردروازے کے باہر ہجوم جمع ہونے لگا۔ نوروز اٹھااور باغ کوٹھی کے کھنڈر کی ایک دیوار کے پیچھے چلاگیا اورسوچنے لگا ۔ نگہ داشت کی تمام کوششیں جاری ہیں ،پھرآخریہ باغ روز بہ روز کیوں ویران ہوتا جارہا ہے؟باہر ایک ازدحام ہے اور گشت پہلے سے زیادہ سخت ۔’’کیاہزاروں سال پرانا دیوپھرسے۔۔۔‘‘
ایک شوراٹھا اوربھیڑاندرداخل ہوگئی ۔۔۔کچھ لوگ حوض کے چبوترے پر، باقی حوض کے چاروں طرف بیٹھ گئے ۔چبوترے پرایک شخص کھڑاہوااورکہنے لگا۔’’باغ کی حفاظت کی ذمہ داری اب ہماری ہے ۔صدردروازے کوبھی باقی دروازوں کی طرح بند کردینا ہوگا۔‘‘
مجمع سے ایک آواز ابھری ۔۔۔’’باہر سے کسی کوآنے کی اجازت نہیں ہوگی۔‘‘یہ کہہ کر اس نے دامن سمیٹ لیا اوربیٹھ گیا۔
چبوترے پرکھڑا شخص پھربولا ۔۔۔ ’’یوں توہم نے صدیوں سے اس باغ میں کسی گل ریز اورکسی گلشن آرا کونئی قسم کاکوئی بھی پودالگانے نہیں دیا ہے، کیونکہ ہرنیاپودا پرانے پودے کو غارت کردیتا ہے۔ چہاردیواری کے باہر سے لائے ہوئے پودے لگا کر باغ کی فضاکوآلودہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
نوروزؔ دیوار کی آڑ میں کھڑا حیرت سے سن رہا تھا۔ ’’نئے پودوں کی آمدپربندش؟ کہیں باغ کے ویران ہونے کی یہی وجہ تو نہیں ۔ ہاں یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے باغ اجڑاہی نہ ہو بلکہ نئے پھولوں کے نہ کھلنے اورنئے پھلوں کے نہ پھلنے کے سبب دنیا کے دوسرے باغوں کے مقابلے میں اجڑتا ہوا سامحسوس ہورہاہو۔‘‘
اب اس نے دیکھا کہ چبوترے پر کوئی دوسرا شخص آکر کھڑا ہوگیا ہے ۔اس شخص نے شلو کے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور مسکراتے ہوئے باغ کے چوتھے کھونٹ کی طرف اشارہ کیا، جیسے اس نے رکھوالی کاکوئی کارگرطریقہ ڈھونڈ نکالا ہو۔ دیوار کے پیچھے سے نوروزؔ نے جھانک کر دیکھا اور ششدر رہ گیا۔ وہاں سے گل رعنا، گل جعفری اور گل سوسن کے پودے اکھاڑدیے گئے تھے۔ ہاں کیتکی اورناگ پھنی کے پودے قطاروں میں اسی طرح لگے ہوئے تھے۔
’’باغ کی صفائی کے نام پر خود روگھاس سمجھ کر ان لوگوں نے سب پودے اکھاڑ پھینکے۔ گلِ سوسن بھی !‘‘اس نے چیخ کر کچھ کہنا چا مگراب اس کی زبان پوری طرح گُنگ ہوچکی تھی۔ کیوڑے کی جھاڑیوں سے ایک سانپ نکلااور گلِ شب افروز کے جھنڈ سے ہوتاہوا بھیڑمیں شامل ہوگیا۔ کچھ لوگ بلّم بھالے لے کر دوڑے اورسانپ مارنے کے بجائے گلِ شب افروز کے پودوں کو جڑسے اکھاڑنے لگے۔ اب حوض پرکھڑاوہ شخص کہہ رہاتھا کہ ۔۔۔’’بے کار اوربے میل پیڑ پودے اکھاڑ پھینکو۔ برگد کی صف میں برگد اورپیپل کی صف میں پیپل ۔پلکھن ، چیڑ، ساکھوااور بس۔۔۔‘‘اس کی بات ادھوری ہی تھی کہ بغیر کچھ سوچے ،بغیر کچھ سمجھے بھیڑ چاروں طرف بکھر گئی اور پلک جھپکتے خیار شنبر، پام اور ایروکیریا کے درخت بھی اُکھاڑ پھینکے۔
’’اے خدا یہ باغ کی زیبائش کاکون ساطریقہ ہے؟ اے میرے پاک پروردگار کیااب اسے بچانے کی کوئی تدبیر نہیں۔ اے قادرمطلق کوئی ترکیب بتا۔ ہاتھ میں چاقو اورسرخ مرچوں کی شیشی لے کر کسی شہزادے کوبھیج۔‘‘اتنے میں دیکھتا کیا ہے کہ کچھ نوجوان ایک ہاتھ میں چاقواوردوسرے ہاتھ میں شیشی لیے باغ میں داخل ہوئے ۔وہ سب پہرے کے لیے باغ کے کونے کونے میں منتشر ہوناہی چاہتے تھے کہ ایک بوڑھا شخص سامنے آکرکھڑا ہوگیا۔
’’دیکھو میرے چہرے پر یہ جھریاں دیکھو۔‘‘ پھراس نے کنّی انگلی کازخم دکھایا اور رقّت آمیز لہجے میں بولا۔’’میں یہ ترکیب صدیوں سے آزماتاآرہاہوں۔کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تدبیراب کارگرنہیں رہی۔ اب کوئی دیوباغ کی دیوارپھلانگ کر اسے اجاڑنے کے لیے باہر سے نہیں آتا، اس کے اجڑنے کاسبب کچھ اورہے، توظاہر ہے نگہبانی کی تدبیر بھی کچھ اورہی ہوگی۔ ‘‘اتنا سننا تھا کہ مجمع پر سکتہ ساطاری ہوگیا اورپھرایک ایک کرکے سب واپس ہولیے۔ وہ بھی جوبعد میں آئے تھے اوروہ بھی جوحوض کے گرد جمع تھے۔
ایک روز پھرشہر میں ڈگی پٹی ، اعلان ہوا کہ ’’باغ کی حفاظت کے تمام حربے آزمائے جاچکے ہیں مگرہربار ناکامی ہاتھ آتی ہے۔ باغ متواتر ویران ہوتاجارہا ہے۔ ہرخاص وعام کو مطلع کیاجاتا ہے کہ سورج طلوع ہونے سے قبل باغ کے صدردروازے پر پہنچے۔‘‘سورج طلوع ہونے میں ابھی دیر تھی۔ صدردروازہ بندتھا۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوچکے تھے ۔ نوروزؔ بھی ہزاروں سال پرانی آنکھوں میں ویرانی لیے وہاں موجود تھا۔ دروازے پر بڑی سینی میں چاندی کے ورق میں لپٹا ایک بیڑا رکھا تھا۔ ایک جمّ غفیر تھا مگرخاموش۔۔۔’’توکیا اسی طرح لوگ شام ہوتے ہوتے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے؟‘‘ آخر کار شام بھی ہوگئی۔ دن بھر کی گرم ہوا نے سینی میں رکھے بیڑے کوجھلسا دیا۔ لگتاتھا کہ ایک جھٹکے کے ساتھ لوگ پلٹیں گے اورواپس شہر کی طرف دوڑ پڑیں گے کہ اچانک مجمع سے ایک آواز آئی جیسے بجلی چمکی ہو اورپھربادل گرجنے لگے۔ مجمع کو چیرتا ایک بوڑھا ،اپنی جھولی کوبغل میں دبائے صدردروازے کی طرف بڑھتا چلاآرہاتھا ۔نوروزؔ نے پہچاننے کی کشش کی ۔’’کیایہ گل ریز ہے؟نہیں۔ توپھرشاید نوروز۔نہیں۔ میں تویہاں کھڑاہوں اگراس وقت میرے چہرے کے سامنے آئینہ ہوتا توضرور اس بوڑھے کو قریب سے دیکھ پاتا۔‘‘اس نے تھوڑاآگے بڑھ کر پہچاننے کی کوشش کی۔’’ارے یہ تووہی بوڑھا ہے جس نے کنی انگلی کا زخم دکھاکر مجمع کوواپس کیاتھا۔ اس دن یہ کتنا مایوس تھا مگرآج اس کے چہرے پر یہ چمک؟ شاید میری آنکھوں کی چمک ہو‘‘۔پھر کیا تھا ،بوڑھے نے بیڑااٹھا یا اورآسمان کی طرف دیکھ کر منہ میں رکھ لیا۔ لوگ مضطرب تھے، شایددیکھنا چاہتے تھے کہ اس کی جھولی میں کیا ہے؟ بوڑھے کی تجربے کارآنکھیں مسکرائیں۔ اس نے جھولی میں ہاتھ ڈالا ،سب سے پہلے جوچیز نکلی وہ گلِ ہزارہ کی ایک خوبصورت گیند تھی۔ پھول کی اس گیند کے چاروں طرف نیلوفر ،نسترن اوریاسمین کی پتیاں گُندھی ہوئی تھیں۔ اس جھولی سے پھرایک تیشہ نکلا۔ نوروزؔ نے دیکھا کہ تیشے کی نوک پرفصیل کے تمام بنددروازوں کوتوڑنے کا عزم چمک رہاتھا۔
’’سب سے پہلے باغ کے تمام دروازے کھولنے ہوںگے۔‘‘بوڑھے نے کہا۔ نوروز کچھ اورآگے بڑھ گیا۔ باغبانی کے اوزار اورکچھ نایاب ونادر پھولوں کے پودے دیکھ کر وہ بوڑھے کے بالکل قریب جاپہنچا ،اتناقریب کہ شاید دونوں میں اب کوئی فرق نہ رہاتھا۔
لوگ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ایک آواز آئی۔
’’رکھوالی کایہ کون ساطریقہ ہے؟‘‘
بوڑھے نے اس طرف دھیان نہیں دیا اورنرمی سے کہا۔’’آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ سب اپنی اپنی مٹھیاں کھول دیں۔‘‘
سب نے بند مُٹھیاں کھول دیں، پھر صدردروازہ کھلا ،بوڑھا باغ میں داخل ہواہی چاہتاتھا کہ ٹھٹھکا ،پلٹ کر نوروز کی طرف آیا اوربولا۔’’ممکن ہے میں باغ کی نگہبانی میں کامیاب ہوجائوں۔ ممکن ہے باغ پھرسے سرسبز ہوجائے۔ ممکن ہے اس گلستاں کادامن بہت وسیع ہوجائے مگراس کی کیاضمانت ہے کہ یہ باغ پھرنہیں اجڑے گا۔‘‘ نوروز یہ سوال سن کر بوڑھے کے قدموں میں گرگیا ۔ بوڑھے نے جھک کراسے اٹھایا اورجھولی میں ہاتھ ڈال دیا۔ سب تعجب سے دیکھ رہے تھے کہ اب جھولی سے کیا نکلتا ہے ۔ اس نے جھولی سے سیاہ دستے اورتیز دھاروالی کوئی شے نکال کر نوروز کے ہاتھ میں تھمادی۔
’’شاید چاقو ہے !لیکن مرچوں کی شیشی؟‘‘نوروز سوچ ہی رہاتھا کہ بوڑھے نے پھر جھولی میں ہاتھ ڈال دیا اورایک شیشی نکال کر نوروز کودی اورکہا۔’’اگرتواس کا صحیح استعمال کرے گاتویہ باغ قیامت تک شاداب وسرسبز رہے گا، لیکن ۔۔۔‘‘اس نے ’لیکن‘ سے آگے کچھ کہنا چاہا مگرپھر ’لیکن‘ کے سواکچھ نہ کہہ سکا اور مجمع کی طرف دیکھ کر مایوس ہوگیا۔
نوروز نے دونوں چیزوں کودیکھا۔ ان میں نہ کوئی چاقو تھااورنہ مرچوں کی شیشی ۔ اس نے پھرغورسے دیکھا اورسیاہ مگر روشن رقیق سے لبریز شیشی کے ڈھکن کوکھولا اورتیز دھاروالی چیز کے ایک سرے کوداہنے ہاتھ کے انگوٹھے اوردوانگلیوں کے پوروں کے درمیان دباکر شیشی میں ڈبودیا۔ ایساکرتے ہی اس کے چہرے سے دانش وری کی شعاعیں پھوٹنے لگیںاورباغ کی فصیل پرایک تحریر ابھرآئی۔ نوروز کے ذہن کے تارجھنجھنانے لگے۔ آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں تودیکھا کہ ایک پریوں کی شہزادی ،ماتھے پر نقرئی تاج، ہاتھ میں قدیم سازہنس پرسوار، باغ کے دروازے کے بہت قریب سے گزررہی ہے۔
یہ ماجرا نوروز اوربوڑھے کے سواسب کی نگاہوں سے پوشیدہ رہااور پھریوں ہوا کہ جس نے بوڑھے کودیکھا وہ نوروز کو نہیں دیکھ سکا اورجونوروز دیکھ رہاتھا اس کی نظروں سے بوڑھا غائب تھا۔


نیم پلیٹ


’’کیانام تھا اس کا؟ اُف بالکل یاد نہیں آرہا ہے۔‘‘ کیدارناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹاکر پھینک دیااور اٹھ کر بیٹھ گئے ۔
’’یہ کیاہوگیا ہے مجھے، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آرہی ہے ۔ہوگا کچھ نام وام ،نہیں یادآتا توکیاکروں، لیکن نام تو یادآناہی چاہیے۔ آخروہ میری بیوی تھی، میری دھرم پتنی۔‘‘ انھوںنے پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ پچھتّر سالہ کیدارناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑا نے لگیں۔
’’سرلاکی ماں۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے بے ساختہ نکل پڑا۔
’’وہ توٹھیک ہے مگرکچھ نام بھی تو تھا اس کا۔ کیانام تھا؟اس کے نام کا پہلااکچھر۔۔۔ہاں کچھ یادآرہا ہے ۔۔۔‘‘ انھوںنے پیرپلنگ کے نیچے لٹکادیے اوروہ لائٹ آن کرنے کے لیے دیوار میں لگے سوئچ کی طرف بڑھے۔
’’اس کے نام کا پہلا اکچھر۔۔۔’’کے‘‘ نہیں نہیں ۔ہاں ہاں یادآگیا۔‘‘
ان کاجھریوں سے بھراپوپلا منہ مسکرانے کے لیے تیارہوہی رہاتھا کہ کھانسی کا ایک ٹھسکا لگااورپھر بھول گئے کہ وہ اکچھر کیا تھا۔
کمرے میں چاروں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔
’’ڈھائی بجنے کوہیں۔‘‘ان کی نظرٹائم پیس پر پڑگئی ۔
’’ٹائم پیس۔۔۔؟ہاں۔۔۔ٹا۔۔۔نہیں، پیس۔۔۔’’سا‘‘
ارے ہاں۔۔۔۔
’’سا‘‘ ہی تو تھا اس کے نام کا پہلااکچھر ۔‘‘
’’سا‘‘؟نہیں یہ توسرلاکی ماں۔۔۔
’’پھرسرلاکی ماں ۔آخرنام بھی توکچھ تھا اس کا۔‘‘ کیدارناتھ نے جھنجھلاکر سرہانے رکھی چھڑی کواٹھایا،گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اورباربارچھڑی فرش پرپٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کوجکڑکر اس طرح سرکے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سرپھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں ۔
’’تعجب ہے اپنی بیو ی کانام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی توچالیس برس گزرگئے ہیں۔ تین سال کاعرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔ صرف تین سال ہی تواس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘
وہ خالی خالی نظروںسے کمرے کوگھوررہے ہیں۔پلنگ ،میز، کرسی اورالماری ، کتابیں۔۔۔الماری کتابوں سے بھری پڑی ہوگی، الماری کے پٹ بند ہیں۔ وہ پلنگ کی جانب بڑھے اور پھرالماری کی طرف مڑگئے۔ دروازہ کھولاالماری خالی تھی ۔۔۔ نہ اس میں کتابیں تھیں اور نہ خانے۔’’ارے اس میں تو پچھلی دیواربھی نہیں ہے۔‘‘
وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پائوں اس کے اندررکھ دیاپھردوسراپائوں ،اب وہ دروازے کے باہرکھڑے تھے۔ سب کچھ خالی تھا، ان کے ذہن کی طرح ،وہ سمت بھول گئے تھے اورالماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔ باہر سڑک پر کہرا جماہواتھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹمارہے تھے۔ سنسان سڑک پرانھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امنڈآئی ہے۔ چاروں طرف شور ہورہا ہے ۔ باجے کے شورسے کان پھٹے جارہے ہیں۔ دورکہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ۔۔۔سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرارہی ہے۔
سڑک پر ایک پتھر کاٹکڑا پڑاتھا، انھیں ٹھوکر لگی اورلڑکھڑا کرکھمبے سے جاٹکرائے ۔ بہت زور سے دھکادیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ،اورپھر دروازہ بند۔
’’کیانام ہے تمہارا؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کانام پوچھاتھا انھوںنے ۔ وہ شرماگئی تھی اورگھٹنوں میں منہ چھپا لیا تھا۔ انھوںنے پھر پوچھا تواس نے آہستہ سے اپنانام بتایا۔
’’کیابتایاتھا اس نے؟ اُف بالکل یادنہیں۔‘‘ اوروہ چھڑی زمین پر ٹیکتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ انھیں کہاں جاناہے؟ پتہ نہیں ۔پھربھی وہ چلتے رہے اور اب اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے تھے۔
یہ علاقہ کون ساہے؟کیلاش نگر؟ ہاں شاید وہی ہے ۔آگے دائیں طرف ان کے دوست شرماجی کی کوٹھی ہے۔باہرگیٹ پر نیم پلیٹ لگی ہے۔’’ ست پرکاش شرما۔‘‘وہ ان کے دفترکے ساتھی تھے۔ گزرے ہوئے کئی برس ہوگئے۔
اچانک کیدارناتھ ٹھٹھکے اوررک گئے۔ ’’ارے یہی توہے شرماجی کی کوٹھی، ہاں بالکل یہی ہے۔ وہاں لگی ہے ان کے نام کی پلیٹ۔‘‘کیدارناتھ کوکہرے کی دھندلی فضامیں ایک تختی نظرآئی۔
’’شرما۔۔۔‘‘ انھوںنے پڑھا۔ ’’رام پرکاش شرما۔‘‘
’’رام پرکاش۔۔۔؟نہیں ان کانام توست پرکاش تھا۔ پھرغورسے دیکھا۔
’’رام پرکاش شرما(ایڈوکیٹ) ۔‘‘صاف صاف لکھا تھا۔
انھیں یادآیا کہ ایک روزشرماجی نے کہاتھا ۔’’میرا بیٹا رام پرکاش ایڈوکیٹ ہوگیا ہے۔
’’اچھا تواپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑکر۔۔۔‘‘کھٹ سے کوئی چیز گری۔انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے ۔وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکالی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگرایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جوابھی ابھی کانپ رہی تھیں، پیاسے ہرن کی طرح کلانچیں مارنے کوبیتاب ہواٹھیں۔
وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یارینگ رہے ہیںیا پھرکھڑے کھڑے ہی۔۔۔ یہ تومعلوم نہیں مگر اب وہ اپنے گھر سے کئی میل دورسرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔
سرلا سے اس کی ماں کانام پوچھ ہی لیںگے۔
سرلا کو اپنی ماں کانام یاد ہوگا؟ کیوں نہیں۔۔۔کوئی ماں کانام بھی بھولتا ہے کیا۔
’’پاروتی دیوی۔۔۔‘‘ان کی ماں کانام پارتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتّر سال کی عمرمیں بھی اپنی ماں کانام یاد ہے۔
’’پاروتی دیوی کی جے۔۔۔‘‘بچپن میں وہ اپنے باباکے ساتھ بیٹھے پوجا کررہے تھے ۔’’بابا۔۔۔اماں کانام بھی توپاروتی دیوی ہے۔ ‘‘’’ہاں بیٹے یہی پاروتی دیوی ہیںجن کے نام پرتمہاری اماں کانام رکھاگیا ہے۔ ‘‘ اوراس روز سے وہ آج تک روزانہ پاروتی دیوی کی پوجاکرتے ہیں اور جے بولتے ہیں۔ ماں توبھگوان کاروپ ہوتی ہے، پھربھلاسرلا کیسے اپنی ماں کانام بھولی ہوگی ۔کیدارناتھ کادل اندرسے اتنا خوش ہورہاتھا کہ ہاتھ پائوں پھولنے لگے۔ رفتار میں دھیماپن آگیا مگروہ اپنے بوڑھے جسم کو ڈھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے ۔۔۔ !!
’’بابوجی آج اتنے سویرے آپ ادھر۔۔۔؟‘‘سرلانے کسی سوچ میں ڈوبے کیدارناتھ کوچائے کی پیالی دیتے ہوئے پوچھا ۔بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کاگولا جھانک رہا ہے۔ کیدارناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سردہوکر سُن پڑچکی ہیں، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اوروہ اندر سے بالکل خالی ،بالکل کھوکھلی ہوچکی ہیں، پرندے ان کے سر پرمنڈلا تے سرلاکے مکان کے اوپر جابیٹھتے ہیں اوروہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔ ’’میں یہاں کھڑاہوں ۔آتے جاتے لوگ دیکھ کرکیا سوچیںگے ۔ اب تودن چڑھے کافی دیر ہوگئی ہے۔ سرلا سوکراٹھ گئی ہوگی۔ اندرچلنا چاہیے۔ لیکن کیاواقعی سرلا نے اب تک اپنی ماں کانام یادرکھا ہوگا؟ شرماجی کے بیٹے نے اپنے باپ کی نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ۔۔۔‘‘کھٹ سے کوئی چیز گری، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموںمیں آن گری ہے۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے اوران کی آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا ۔اندھیری رات۔۔۔ کُہرے سے بھری ہوئی سرد رات۔۔۔ بے شمارکتوں کے بھونکنے کی آوازیں ،کئی آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں ۔وہ کتوں سے بچنے کے لیے ملٹن پارک میں گھس جاتے ہیں۔ ملٹن پارک؟ اب تواس کانام گاندھی پارک ہوگیا ہے۔ گاندھی پارک ہویاملٹن پارک ، ہے تویہ وہی پارک جہاں وہ شادی کے دودن بعد اسے لے کر آئے تھے۔ پارک کی بارہ دری ٹوٹ کر کھنڈر بن گئی ہے ۔ٹوٹی ہوئی بارہ دری کے پتھروں کے نیچے سے ہوتی ہوئی ان کی نظریں چالیس برس پرانی بارہ دری میں گھس جاتی ہیں۔’’ آئو یہاں بیٹھو۔۔۔ کتنی خوبصورت ہیں یہ محرابیں۔‘‘وہ دونوں سنگ مرمر کے ستون سے کمر ٹکاکر بیٹھ جاتے ہیں اور پھروہ دنیاسے بے خبر بہت دیرتک اس کے پاس بیٹھے رہے۔ مہینوں ۔۔۔برسوں۔۔۔ کہ اچانک ان کی بیٹی سرلانے انھیں چونکادیا۔
’’بابوجی آپ چپ کیوں ہیں؟ کیاسوچ رہے ہیں؟
’’کچھ نہیں بیٹی۔ میں سوچ رہا تھا آج اتنے سویرے۔۔۔ اصل میں، میں نے سوچا جوگیندر کے دفترجانے سے پہلے ہی پہنچ جائوں تواچھا ہے۔‘‘
’’بابو جی آج تواتوار ہے۔‘‘
’’او ہ ، ہاں آج تواتوار ہے۔ کیاکروں بیٹی ریٹائر ہونے کے بعد دن تاریخ یادہی نہیں رہتے۔‘‘
وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔’’دن تاریخ کیا اب توبہت کچھ یاد نہیں رہا۔‘‘
اتنے میں جوگیند ربھی آنکھیں ملتے ہوئے آئے اورکیدارناتھ کوپرنام کرکے صوفے پربیٹھ گئے۔
’’بابوجی اتنے سویرے؟ سب ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’میرے جلدی آنے پر یہ لوگ اتنا زورکیوں دے رہے ہیں۔ ضرورمیرے اچانک آنے سے یہ سب ڈسٹرب ہوئے ہوںگے۔ مجھے چلے جاناچاہیے، ابھی ۔۔۔‘‘کیدارناتھ کوخاموش بیٹھا دیکھ کر سرلا بول پڑی۔’’ارے بابوجی توبھول ہی گئے تھے کہ آج اتوار ہے اسی لیے تواتنی جلدی ۔۔۔‘‘
’’آج اتوار ہے اورمیں اس طرح بغیر بتائے یہاں چلاآیا ہوں۔ ہوسکتا ہے ان دونوں کاکوئی پروگرام ہو۔ اب میری وجہ سے ۔۔۔‘‘
’’ہفتے میں چھٹی کاایک ہی دن توملتا ہے ان لوگوں کو۔مگرمیں بھی توروزروز نہیں آتا، گھر سے چل پڑاتھا، بس چلتا رہا اور چلتے چلتے جب سرلا کے گھر کے قریب آگیاتو سوچا، ملتاچلوں، کیایہ لوگ آج میرے لیے اپنے پروگرام نہیں چھوڑسکتے؟‘‘
کیدارناتھ کی آنکھوں میں آنسوچھلک آئے ہیں۔
’’کمبخت بڑھاپے میں آنسوبھی کتنی جلدی نکل آتے ہیں ۔‘‘وہ آنسوئوں کو چھپانے کی کوشش کررہے تھے کہ سرلانے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ’’یہ اس طرح کیادیکھ رہی ہے ؟کہیں سب کچھ سمجھ تونہیں گئی۔‘‘
’’کیاسمجھے گی؟ یہ کہ میں اپنی بیوی کانام بھول گیا ہوں اوررات بھر جاگتا رہا ہوں یایہ کہ میں رورہاہوں۔ ‘‘
’’بیٹی آج مجھے جوگیندرسے کچھ کام تھا۔۔۔‘‘
’’بابوجی مجھ سے ؟‘‘جوگیندر نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔
’’ہاں یوں ہی ، کوئی خاص بات نہیں تھی ۔۔۔‘‘پھر وہ لان کی طرف جھانکنے لگے ۔
’’آج بہت سردی ہے ۔تمہارے لان میں توسویرے ہی دھوپ آجاتی ہے۔‘‘سرلانے لان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’’ہاں بابوجی، ابھی تودھوپ میں تیزی بھی نہیں آئی اوراوس بھی بہت ہے، پورالان گیلا ۔۔۔‘‘
وہ کہہ رہی تھی کہ جوگیندر بیچ میں بول پڑے۔
’’بابوجی ابھی کچھ کام کے سلسلے میں آپ کہہ رہے تھے۔۔۔‘‘
’’کیایہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں جلدی سے کام بتاکر چلتا بنوں تاکہ ان کے پروگرام ڈسٹرب نہ ہوں۔ ‘‘ کیدارناتھ کھانسنے لگے اورکافی دیرتک کھانستے رہے۔ وہ کھانس رہے تھے اور سوچتے جارہے تھے کہ اب کیاکہوں کہ بغیر سوچے سمجھے ہی بول پڑے ۔۔۔۔۔۔
’’بیٹے تمہیں نام یادرہتے ہیں؟‘‘
’’کیسے نام بابوجی؟ویسے میں ہمیشہ نام یادرکھنے میں کمزور رہاہوں، اسی لیے ہسٹری کے پرچے میں میرے نمبر بہت کم آتے تھے۔‘‘
’’اب کیاپوچھوں؟ کیاسرلاسے یہی سوال کروں؟ مگریہ توبڑی بے تکی بات ہوگی۔ اگرسرلا خود ہی بول پڑے کہ بابوجی مجھے نام یادرہتے ہیں ،توجلدی سے پوچھ لوں کہ بتائو تمہاری ماں کانام کیاتھا ۔۔۔‘‘
کیدارناتھ نے حسرت بھری نظروں سے سرلاکی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی اورپھراٹھ کرکچن کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔
سورج چڑھے کافی دیر ہوچکی تھی ۔دھوپ میں بھی تیزی آتی جارہی تھی ۔ لان کی ہری گھاس پرجمے شبنم کے قطرے اپنا وجود کھوچکے تھے۔ کیدارناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کواس طرح ٹٹولا جیسے وہ ڈھونڈرہے ہوں کہ کپڑوں کے اندرجسم ہے بھی یانہیں۔
دوپہر کاکھاناتیار تھا ۔لیکن ابھی تک سرلاسے اس کی ماں کانام پوچھنے کاموقع نہیں مل پایاتھا۔ سرلاصبح سے کھانا تیا ر کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ کیدارناتھ باہر دھوپ میں جاکر بیٹھتے توکبھی اندرآکربرآمدے میں ٹہلنے لگتے ۔کبھی جوگیندر سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتیں اور کبھی سرلاآتی تواس موقع کی تلاش میں رہتے کہ ذراجوگیندر اٹھ کرجائیں اوروہ اکیلے میں سرلاسے اس کی ماں کانام پوچھ لیں۔
’’اب دوپہر کے کھانے کاوقت ہوچکا ہے ۔کھانے پربات میں بات نکلے گی، تب تو پوچھ ہی لوںگا۔ ‘‘انھوںنے سوچا اورمطمئن ہوگئے۔
کھانے کی میز سج چکی ہے ۔سرلانے کئی طرح کی سبزیاں بنائی ہیں ۔۔۔کھانابہت لذیذ ہے۔ آج بہت دنوں بعد اپنی بیٹی کے ہاتھ کاکھانا ملا ہے۔ نوکر کے ہاتھ کاکھاتے کھاتے ان کادل بھرگیاتھا۔ سرلاکی ماں کے ہاتھ کاذائقہ تواب انھیں یاد بھی نہیں ۔ اس کانام بھی تویاد نہیں ۔۔۔ان کا جی چاہا کہ جلدی سے پوچھ لیں۔
’’بیٹی تمہاری ماں کاکیانام تھا۔‘‘
’’ارے یہ کیا۔ اگراس طرح وہ کوئی سوال کریں گے تو یہ دونوں کیا سوچیںگے۔ دونوں قہقہہ مارکرہنس پڑیںگے۔۔۔‘‘ کیدارناتھ خود پرقابو پانے کی کوشش کرنے لگے کہ کہیں بھول کریہ سوال ان کے منہ سے نہ نکل پڑے ۔۔۔۔’’کس سے پوچھوں ؟کمبخت خود ہی میرے ذہن میں آجائے تو پوچھنا ہی کیوں پڑے؟ انھوںنے بھنویں سکوڑیں، پیشانی پربے شمار بل پڑگئے پھرآنکھیں بندکرلیں اوراپنے ذہن سے جوجھنے لگے۔’’آج سرلاکابیٹا نظرنہیں آرہا ہے ، شایداسے اپنی نانی کا نام یاد ہ۔۔۔باتوں باتوں میں اس سے توپوچھ ہی لوں گا ۔۔۔‘‘’’سرلاآج تمہارا بیٹا ۔۔۔؟‘‘
’’ہاں پتاجی میں توبتانا بھول ہی گئی ۔بی۔اے پاس کرنے کے بعد اس نے کمپٹیشن کی تیاری شروع کردی تھی۔ کل سے اس کے امتحان ہیں۔ دودن پہلے ہی دلّی چلا گیا ہے ۔۔۔۔‘‘’’او۔۔۔اچھا۔۔۔توگھر پرنہیں ہے۔‘‘کیدارناتھ ایک ٹھنڈی سانس لے کر پھرکھانے میں مصروف ہوگئے۔ کھانا ختم ہوگیااورکیدارناتھ کواپنی بیوی کانام یادنہیں آیا ۔ کھانے کے بعد چائے اور پھر دیکھتے دیکھتے ہی شام ہوگئی۔ کیدارناتھ بغیرنام پوچھے ہی وہاں سے اٹھ پڑے۔گھرلوٹنے کے لیے بس پکڑی ۔ اب ان کے جسم کے ساری رگیں ڈھیلی پڑچکی تھیں۔ ہرایک شخص کودیکھ کر انھیں لگتا کہ اسے ضرور میری بیوی کانام معلوم ہوگا۔ وہ ہرایک سے پوچھنا چاہتے ہیں مگرکوئی شخص نہ توان کی طرف متوجہ ہوتا اورنہ ہی کچھ پوچھنے کے لیے ان کے ہونٹ کھلتے۔ سفرجاری رہااور پھراچانک ایک جھٹکے کے ساتھ بس رکی۔ انھوںنے کھڑکی سے باہر جھانکا اوراترنے کے لیے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوگئے۔
کمرے میں چاروں طرف اندھیرا ہے ۔ وہ بغیر روشنی کیے بستر پر ڈھیر ہوگئے ۔اندھیرا گہراہوتا جارہاتھا ،کیدارناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آرہی ہیں ۔انھوںنے آنکھوں پر زور دے کر دیواروں کی طرف دیکھا توان کی آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔ پورے کمرے میں دھواں بھرگیاتھا۔ ’’اٹھ کرلائٹ جلادی جائے۔‘‘انھوں نے سوچا۔ مگر روشنی میں تو انھیں نیند ہی نہیں آتی ۔اندھیرے میں بھی کب آتی ہے۔ اب ان کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں ۔ جسم سے بھی آگ نکلنے لگے گی۔ آگ کی لپٹیں بہت تیز ہوگئی ہیں ۔ سرلا کی ماں کی چتا جل رہی ہے، روشنی بہت تیز ہے اورانھیں نیند نہیں آرہی ہے۔ توپھرآنکھیں نیند سے بوجھل کیوں ہوتی جارہی ہیں۔۔۔؟جگہ جگہ سے جسم گل گیا ہے ۔وہ جدھر کروٹ لیتے ہیں ادھر ہی سے شدید درد کی لہراٹھتی ہے ۔ان کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہوتے جارہے تھے کہ اچانک ذہن سے کوئی چیز نکل کر پلنگ کے نیچے فرش پرجاپڑی ۔ کیدارناتھ اٹھ کر بیٹھ گئے ۔لائٹ جلائی اورالماری کھول کرتمام کتابیں فرش پربکھیردیں۔ ایک ایک کرکے میز کی دراز کے تمام کاغذات نکال ڈالے اورپرانے بکس سے کچھ فائلیں نکالیں پھردیوانوں کی طرح انھیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے ۔۔۔۔کسی کاغذ کو پڑھتے ، کسی کو پھاڑ کر پھینک دیتے اور کسی کوتہہ کرکے رکھ لیتے۔ ’’کمبخت اس کی کوئی چٹھی بھی تونہیں مل رہی ہے۔ ‘‘ اب کیدارناتھ نے جھنجھلا کر کتابوں، کاغذوں اور فائلوں کونوچ کر پھینکنا شروع کردیا ہے ۔دونوں ہاتھ بالکل شل ہوچکے ہیں۔ سانس رکنے لگی ہے ۔انھوںنے گھبراکر گلے میں بندھے مفلر کابل کھولنا چاہا کہ پتانہیں کیسے گرفت اورتنگ ہوگئی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ مفلر کھینچ لیا اور بری طرح ہانپنے لگے۔ ’’ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔یادکرنابھی بیکار ہے، اب کچھ یاد نہیں آئے گا۔‘‘ اور وہ یاد کرنے لگے کہ ان کی بیوی کانام کیاتھا۔
شانتی۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔
سروجنی۔۔۔۔
نہین ۔۔۔نہیں
سرشٹھا۔۔۔؟
اُف یہ بھی نہیں۔۔۔۔
ہزاروںنام ان کے ذہن میں تیزی سے آنے لگے ۔پھروہ بھول گئے کہ وہ کیایادکررہے تھے۔
آج کون سادن ہے؟
اتوار۔۔۔
نہیں اتوارتوکل تھا۔
کل؟
اتوار تواس دن تھا جب وہ سرلا کے گھر گئے تھے اورسرلا کے گھرگئے ہوئے اب صدیاں گزرچکی ہیں۔
ان کی آنکھوں سے زردروشنائی ٹپک کر پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ کتابیں ،کاغذات اورفائلیں۔۔۔کچھ دھندلے دھندلے حروف نظرآئے ۔
’’شرما۔ ہاں میرے دفتر کے ساتھی شرما۔‘‘
’’پورانام کیاتھا ان کا؟‘‘
’’یہ بھی بھول گیا؟‘‘
’’اوران کے بیٹے کا؟‘‘
’’نہیں ،اب مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔‘‘
پارک۔۔۔۔
’’کون سا پارک؟‘‘
’’ہاں وہی پارک جہاں وہ کھڑی مسکرارہی ہے۔‘‘
’’لیکن اب تواس پارک کانام بھی بدل گیا ہے۔‘‘
’’کیا ہے اس کانیانام؟‘‘
’’نیاہی کیااب توپرانابھی یاد نہیں ۔میں سب کچھ بھولتا جارہا ہوں۔‘‘
’’میری بیٹی‘‘۔۔۔
’’اُف اس کانام بھی یاد نہیں آرہا ہے۔‘‘
’’اس کے شوہرکانام؟‘‘
’’ہے بھگوان مجھے کیاہوتاجارہا ہے۔ اب توکچھ بھی یاد نہیں۔‘‘
کیاصرف بیوی کے نام کے لیے وہ اتنے پریشان ہیں۔
نہیں، کوئی اورچیز بھی ہے جسے وہ بھول گئے ہیں۔
’’کیاچیز ہے وہ ؟‘‘
وہ نیم پلیٹ جوباربار ان کے ذہن سے نکل کر گرپڑتی ہے !کیالکھا ہے اس میں؟ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔سب کچھ مٹ چکا ہے ۔۔۔۔۔۔
دیواریں، چھت، دروازے اورفرش۔۔۔کچھ بھی نہیں ہے۔ دورتک پھیلا ہوا ایک بہت بڑامیدان ہے۔ زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑچکی ہیں ۔سورج کاگولا پھیل کراتنا بڑاہوگیا کہ پورا آسمان اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اچانک دورکوئی بہت چھوٹی سی چیز نظرآئی۔
’’کیاہے وہ ؟‘‘
’’کوئی انسان ہے جواپنے چاروں طرف مڑمڑ کردیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب کوئی بھی نہیں ہے، وہ تنہا ہے ،بالکل تنہا۔‘‘
’’ارے وہ تو میری طرف بڑھ رہا ہے ،اوراب میری آنکھوں کے اتنا قریب آگیا کہ اس کے پیچھے سارامیدان ، آسمان اورسورج کاپھیلاہوا گولابھی چھپ گیا ہے۔‘‘
’’کون ہے یہ شخص؟‘‘
’’میں؟‘‘اوران کی آنکھوں کے سامنے خودان کی اپنی ذات اندھیرابن کے چھانے لگی۔
’’مگرمیں کون ہوں؟کیانام ہے میرا؟‘‘
’’ایں۔۔۔اب تو میں اپنانام بھی بھول گیا۔‘‘وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کرزورسے چیخے اوربغیر ریڑھ کی ہڈی والے آدمی کی طرح دہرے ہوتے ہوتے اپنے آپ میں سمٹنے لگے ۔انھیں لگا کہ وہ کئی گززمین کے اندردھنس گئے ہیں۔ ان کادم گھٹ رہا ہے۔ سربری طرح چکرانے لگا اورآنکھوں میں نیلے پیلے بادل اُمنڈ آئے ۔ہاتھ پائوں سُن پڑچکے ہیں اورگلارندھ گیا ہے ، جیسے کوئی بہت موٹی سی چیز اس میں اٹک گئی ہو۔ کانپتاہوا ہاتھ انھوںنے گردن پررکھ لیا اورکھنکارناچاہا مگرانھیں لگا کہ کھنکارتے ہی ہچکی آجائے گی اور وہ مرجائیں گے۔
’’نہیں۔۔۔‘‘وہ بہت زورسے چیخے ۔ان کے ہاتھ کی گرفت گلے پر خود بخود مضبوط ہوگئی تھی۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے۔
’’کے۔۔۔کے۔۔۔‘‘اُف لگتا ہے دماغ کے پرخچے اڑجائیںگے اورزبان کٹ کردورجاگرے گی ۔انھوں نے غورسے دیکھا، حرف کچھ کچھ صاف دکھائی دینے لگے تھے۔’’کے دااا۔۔۔‘‘
اورپھر انھوںنے پڑھ لیا ۔’’کیدارناتھ ۔‘‘ وہ خوشی سے چیخ پڑے اور گلے پر ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑگئی ۔دل بہت زور سے دھڑکا ، پورے بدن میں گدگدی سی ہونے لگی اوروہ لڑکھڑاتے ہوئے پلنگ پرجاپڑے۔
’’کیدارناتھ ،کیدارناتھ۔۔۔‘‘وہ زور زور سے کہنے لگے جیسے اب انھیں سب کچھ یادآگیا ہو۔
اپنی بیٹی کا،دوست کا، اس پارک کا اوراپنی بیوی کانام۔۔۔ کیدارناتھ!محسوس ہوا کہ ساری دنیاکانام کیدارناتھ ہے۔
پھرآہستہ سے اٹھے ،لائٹ بجھائی اورکیدارناتھ ،کیدارناتھ کہتے ہوئے لحاف میں گھس گئے۔
صبح ہوئی توانھوںنے خود کوبہت مطمئن محسوس کیا۔ رات بہت گہری اور سکون کی نیند آئی تھی ۔!


شیشے کی کرچیں


وارڈ کے سب مریض گہری نیند سوتے رہے اوروہ صبح کے انتظارمیں رات بھر کروٹیں بدلتارہا۔ صبح ہوتے ہی مریمؔ اپنی ٹیم کے ساتھ سفید ایپرن پہنے، گلے میں آلہ لٹکائے آہستہ سے آئے گی اورپوچھے گی ۔
’’کوئی پرابلم ؟‘‘
’’جی نہیں ڈاکٹر ۔۔۔‘‘وہ ہمیشہ یہی کہتا لیکن مریمؔ اس جواب سے کبھی مطمئن نہین ہوتی اوربیڈ سے لٹکی کیس شیٹ پڑھنے لگتی ۔انویسٹی گیشن رپورٹیں ،ٹیمپریچر چارٹ اورٹریٹمنٹ کارڈدیکھتے وقت اس کے چہرے پر بے چینی کے آثارتھرمامیٹر کے پارے کی طرح بڑھنے گھٹنے لگتے ۔ جس دن اپناہاتھ اس کے ماتھے پررکھ کر دھیرے سے آنکھوں پر لے آتی تووہ سمجھ جاتا کہ آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اب وہ مریمؔ کے ہاتھ کی نرمی اورسختی سے اپنی حالت کااچھی طرح اندازہ لگانے لگاتھا۔
’عجیب مرض ہے، جوں جوں بڑھتا ہے ،تکلیف کا احساس مٹتا جاتا ہے۔ مریم بھی کچھ نہیں بتاتی۔۔۔وہ ہمیشہ خاموش رہتی ہے مگرہربار لگتا ہے کہ کچھ کہناچاہتی ہے۔
سچ ۔۔۔؟
لیکن مجھ سے آج تک کسی نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔میری ماں نے بھی نہیں۔ باپ کو تو خیر میںنے دیکھا ہی نہیں۔ اب ماں کی شکل بھی دھندلی ہوتی جارہی ہے۔ کس کس طرح سے میں نے ان آنکھوں کوسلامت رکھا ہے۔ میں دنیا کو پہچانتا ہوں مگردنیا مجھے نہیں پہچانتی ،سوائے مریم کے۔ وہ مجھے دیکھتی ہے ،ماتھے پرہاتھ رکھتی اور کچھ کہنابھی چاہتی ہے ۔آخر کیاکہنا چاہتی ہے وہ ۔۔۔؟‘
’’وہ ۔۔۔وہ‘‘۔لگاتار’’وہ۔۔۔وہ ‘‘اورپھرایک ہی تال پر ’’وہ۔۔۔وہ‘‘ کا طویل سلسلہ ۔گویا اس کے سینے میں دل نہیں ’’وہ‘‘ دھڑک رہی ہو۔
’’اگراس نے کچھ کہہ دیا تو ۔۔۔‘‘
’’توکیا؟یاتومیں ٹھیک ہوجائوں گا ،یاپھراسی وقت مرجائوںگا۔‘‘
’’تومیرے مرنے کے ساتھ ہی وہ بھی مرجائے گی؟وہ جوایک آواز ہے۔ وہ جومیرے سینے کے اندر ہے۔‘‘اس نے زورسے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔
صبح ہوگئی تھی ۔وارڈ بوائے نے مریضوں کوناشتہ دینا شروع کردیاتھا۔ ماحول اداس اورفضاخاموش تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ سارے مریض اسی طرف دیکھ رہے ہیں، حالانکہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ کوئی ناشتہ کررہاتھا، کوئی ابھی تک چادر تانے سورہاتھا توکوئی وارڈ میں بے مقصد ادھراُدھر ٹہل رہاتھا کہ ایک زوردار چھناکاہوا ۔آج پھراس سرپھرے مریض نے چائے پی کرگلاس دیوارسے دے ماراتھا۔ چاروں طرف شیشے کی کرچیں بکھرگئی تھیں۔ وہ دورلیٹا یہ منظر دیکھتا رہا، پھر لیٹے لیٹے نظروںسے کرچوں کوسمیٹنا شروع کیا تواسے لگا کہ وہ شیشے کی کرچوں کونہیں اپنے بکھرے ہوئے وجود کوسمیٹ رہا ہے ۔۔۔ اتنے میں ڈاکٹر مریم کیبن سے نکل کر سرپھرے مریض کے پاس آن کھڑی ہوئی۔
’’ڈاکٹرمجھے کیاہوجاتا ہے؟‘‘
’’کوئی بات نہیں ۔ڈاکٹر رابرٹ رائونڈ پر آرہے ہوںگے ۔شاید کوئی دوابدلیں۔‘‘ڈاکٹرمریم نے مریض کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر اس کاجی چاہا کہ وہ بھی سائڈ ریک پر رکھا گل دان دیوارسے دے مارے اور ۔۔۔مگر وہ ایسا نہ کرسکا، کیونکہ اسی لمحے ڈاکٹرمریم کی نظر اس پرپڑگئی اوروہ قریب آکر بولی ۔
’’تم ٹھیک ہوجائو گے ۔مسٹر۔۔۔‘‘نام دیکھنے کے لیے کیس شیٹ پر نظرڈالی۔
’’مریم تو دوسرے ڈاکٹروں سے الگ ہے پھر بھی نام ۔۔۔؟
’’ہاں تم بالکل ٹھیک ہوجائو گے ۔‘‘ ڈاکٹرمریم نے پھر کہا اورخاموشی سے چلی گئی۔
’’میں اس کامطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔بالکل ٹھیک ہوجائوگے یعنی جلد ہی مرجائوگے ،بس چند روز اور۔۔۔‘‘
ڈاکٹر رابرٹ رائونڈ پر آگئے تھے ۔مریمؔ بھی ان کے ساتھ تھی ۔
’’وہ کسی بھی مریض کودیکھ رہی ہوایک اچٹتی سی نظرمجھ پر ڈال لیتی ہے۔ اب وہ لوگ ادھر ہی آرہے ہیں ،مریم کی چال دھیمی کیوں ہونے لگی۔۔۔؟ارے وہ تواپنے کیبن میں جارہی ہے۔ کیامیرے پاس نہیں آئے گی۔ جاتے جاتے ایک بارپھر اس نے مجھے دیکھا ہے۔ میں جانتا ہوں جس کے بچنے کی امید نہیں ہوتی، وہ اس کے پاس آناکم کردیتی ہے۔ ابھی تک اس کادل ڈاکٹروں کے دل کی طرح سخت نہیں ہوپایا ہے۔‘‘
ڈاکٹر رابرٹ ایک ایک کرکے مریضوں کودیکھتے ہوئے اس کے بستر کی طر ف بڑھ رہے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ جب ڈاکٹر رابرٹ کسی مریض کی تمام رپورٹیں ، ایکس رے پلیٹیں اورپوری کیس ہسٹری اپنی ٹیم کے سارے ڈاکٹروں کو دکھاتے ہیں ،کچھ دیر سمجھاتے ہیں اورپھرٹھنڈی آہ بھر کر اس مریض کے سرپر ہاتھ رکھ دیتے ہیں توسمجھیے کہ وہ دن اس مریض کی زندگی کاآخری دن ہے۔
’’آج کس کی باری ہے۔۔۔؟اس سرپھرے مریض کی۔۔۔؟نہیں، اسے توآج دیکھابھی نہیں ،بس آگے بڑھ گئے۔ پھرکون ہے جوآج مرنے وا لا ہے ۔میں؟‘‘
اورپھر اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر رابرٹ اپنے جونیرس کے ساتھ اس کے سرہانے آکر کھڑے ہوگئے ۔رپورٹیں دیکھیں، کیس ہسٹری پڑھ کر سب کوسنائی ۔وہ کانپنے لگا توڈاکٹر رابرٹ نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ آواز اس کے اندر گھُٹ کررہ گئی۔
’’نرس ،ہیموگلوبن ٹیسٹ کرو۔ ڈرپ چڑھانے کاانتظام کرو اور آکسیجن سیلنڈر اسٹورسے نکال کریہیں رکھ لو۔۔۔‘‘
اس کے سینے میںدرد کی لہراٹھی اورآنکھیں نیندسے بوجھل ہونے لگیں تواس نے پورے بدن کوڈھیلا چھوڑدیا ،جیسے مرنے کی تیاری کررہا ہو۔
رات میں کسی وقت درد کی شدت سے آنکھ کھل گئی ۔ دم گھٹنے لگا، فضا میں ہوا جیسے تھی ہی نہیں۔ زخمی پرندے کی طرح ہاتھ پائوں پھڑ پھڑائے اوربہت مشکل سے بھاری پپوٹوں کوتھوڑا سا ہٹانے میں کامیاب ہوسکا۔ دیکھا کہ اس کے چاروں طرف ہرے پردے کاکیبن بناہوا ہے، ایک نرس اسٹول پر بیٹھی اونگھ رہی ہے، اورپھرنرس کی گردن نیند سے ایک طرف ڈھلک گئی۔ نرس کاچہرہ دھندلا پڑنے لگا اورڈاکٹرمریمؔکا چہر اابھرآیا۔
ڈاکٹر مریمؔ۔۔۔نہیں میری مریمؔ۔۔۔!’’مریم اب سوجائو۔ مجھے بھی بہت نیند آرہی ہے ۔‘‘ پھردھیرے دھیرے اس کی آنکھیں بندہونے لگیں۔ لمحے بھر کواندھیر ا چھایا مگرپھر پتلیوں سے تیز روشنی پھوٹی اوراس کے چاروں طرف پھیل گئی ۔صبح ہورہی ہے اوروہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ناشتے کی میز پربیٹھامریمؔ کاانتظارکررہا ہے۔ مریم ؔآئی اوراس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’تم اتنے تنہا کیوں رہتے ہو؟‘‘یہی سوال ایک بار اس کے ایک دوست نے کیاتھا۔
’’مجھے تنہائی پسند ہے۔ ابھی تک مجھے ایسا کچھ نہیں ملا جو۔۔۔‘‘
’’ملے گا۔‘‘
اس نے کہاتھا’’ملے گا‘‘ اورآج مل بھی گیا ،مریمؔ کی شکل میں ،اس طرح کے سوال کرنے والا ایک دوست۔
دوست؟
’’لیکن وہ توایک ڈاکٹر ہے۔ مجھ سے نہیں میرے مرض سے اس کارشتہ ہے۔‘‘
اس نے ذہن سے مریم ؔ کے خیال کو جھٹکنا چاہا۔ آنکھیں کھولیں تونظراسپتال کی بالکونی پرپڑی۔ بالکونی بالکل سونی اورخالی تھی۔ تھوڑی دیریوں ہی گھورتارہا پھرآنکھیں بند کیں تو ا س یتیم خانے کے ایک کونے سے ،جہاں بچپن گزاراتھا ،ایک چھوٹاسا خوبصورت فلیٹ ابھرتا نظرآیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اورمریمؔ اس چھوٹے سے فلیٹ کی بالکونی میں آکر بیٹھ گئے ہیں۔
’’مریمؔ وہ کتنا حسین لمحہ ہوگا جب خدانے تمھیں بنانے کی پلاننگ کی ہوگی۔‘‘
’’اوروہ لمحہ؟جب میری قسمت میں آپ کولکھا ہوگا۔‘‘
’’پتا نہیں وہ لمحہ اچھاتھایابرا۔‘‘
’’برا ۔‘‘وہ جلدی سے بول پڑی اوردونوں کِھلکھلا کرہنسنے لگے۔
’’میں اسپتال جارہی ہوں، لوٹتے میں ڈرائنگ روم کے لیے پردے لیتی آئوںگی۔‘‘
’’کلر؟‘‘
’’ہاں بھئی مجھے آپ کی پسند معلوم ہے۔‘‘
’’اوکے‘‘
’’ٹھیک ہے اب میں تیارہوتی ہوں۔ جائوں؟ ‘‘مسکراتے ہوئے بولی۔
جب مریمؔ بادامی رنگ کی ساڑی پہن کر ڈرائنگ روم میں آئی تواس کادل دھک سے رہ گیا۔
’’اتنی خوبصورت ہے مریم؟ مریمؔ بھی خوب ہے کبھی تودکھائی ہی نہیں دیتی اور جب دکھائی دیتی ہے تواتنا کہ ۔۔۔‘‘
اس کی رگوں میں تنائومحسوس ہوا، جیسے بدن سے جان نکل رہی ہو۔ پوری طاقت سے خودکوسنبھالا ۔ ڈرائنگ روم کے آسمانی پردے آنکھوں کے بہت قریب آکرلہرانے لگے۔ اب پردوں کارنگ بدلنے لگاتھا اوراسپتال کے ہرے پردوں کادائرہ تنگ ہوگیاتھا۔ وہ جاگ رہا تھا لیکن لگاکہ ایک طویل نیند کے بعد ابھی ابھی جاگا ہے۔ نرس اسٹول پربیٹھی اونگھ رہی تھی ۔ گلوکوز قطرہ قطرہ اس کے جسم میں اتررہا تھا اورڈاکٹرمریم ؔ اپنے کیبن میں سوچکی تھی۔ اسے یادآیا کہ آج ڈاکٹررابرٹ نے اپنی ٹیم کے ساتھ آکر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘
سانسیں اکھڑنے لگیں ۔ نرس نے آکسیجن کاسلینڈر سنبھالا۔ اس کی نظروں میں چھوٹا سافلیٹ ہنڈولے کی طرح جھولنے لگا ۔
’’نہیں۔۔۔میں مریمؔ کو، اپنے گھر کو، اس ڈرائنگ روم کوجسے میں نے مریمؔ کے ساتھ مل کر، یاشاید اکیلے ہی سجایا ہے اور اس خوبصورت زندگی کوجس نے میرے اندردھیرے دھیرے جنم لیا ہے ،چھوڑ کرنہیں جاسکتا۔
آج رات سے پہلے جب مریم میری زندگی میں نہیں تھی توکچھ بھی نہیں تھا۔ نہ یہ گھر، نہ ڈرائنگ روم، نہ پردے اورنہ میں۔ مگراب یہ دنیا میرے لیے ایک خوبصورت پینٹنگ کی طرح ہے، دیوار پرلگی ایک پنٹنگ ۔ ابھی ایک لمحے پہلے یہ پنٹنگ خریدتے وقت مریمؔسے کتنا جھگڑا ہوا تھا۔
’’تم صرف ڈاکٹر ہو۔ سارا وقت اسپتال میں گزارتی ہو۔ تمہاراٹیسٹ بالکل خراب ہوگیا ہے۔ تمھیں اچھی چیز پسند ہی نہیں آتی۔‘‘
مریمؔ نے میری طرف کتنے پیارسے دیکھا تھا اور آنکھیں اس طرح جھپکی تھیں جیسے کہہ رہی ہو۔
’’میری پسند تو تم ہو ۔۔۔‘‘
اورپھر ہم پینٹنگ کودیوار پر لگاکر صوفے پربیٹھ گئے تھے۔ُُ
ہرے پردوں کادائرہ بہت تنگ ہوگیا تھا۔ فلیٹ اب بھی ہنڈولے کی طرح جھول رہاتھا، کھڑکی کے شیشے ٹوٹ چکے تھے اورکرچیں اس کی آنکھوں میں بھرگئی تھیں۔ کھڑکی سے دکھائی دینے والا صوفہ سکڑکر اسپتال کے تین پایوں والے اسٹول کی شکل اختیارکرچکاتھا، جس پر نرس بیٹھی اونگھ رہی تھی۔
’’صوفہ کہاں غائب ہوگیا؟ اس پر بیٹھی مریمؔ کہاں چلی گئی؟ یہ آنکھوں میں اندھیر اکیوں چھانے لگا ہے؟ میراگھر کہاں گیا؟ توکیامیں۔۔۔؟ نہیں میں ابھی مرنہیں سکتا۔مریمؔ، میری مریمؔ ،میرے بغیر۔۔۔!نہیں میں اسے اکیلے چھوڑکرکیسے جاسکتا ہوں، مجھے رکنا ہوگا۔ مریمؔ۔۔۔‘‘
’’یس سر۔۔۔کیابات ہے؟ڈاکٹرمریمؔ کوبلائوں۔۔۔؟
’’نہیں۔۔۔ڈاکٹرکونہیںمیری۔۔۔‘‘نرس نے دیکھا کہ اس نے کچھ اوربھی کہنے کی کوشش کی مگرہونٹ محض پھڑپھڑا کررہ گئے ۔
’’کہیں سانس نکل نہ جائے۔‘‘وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے لیے سانس روکنے لگا، نرس سمجھی کہ دم نکل رہا ہے۔ سانس رکتی رہی اورچلتی رہی اورجب دل کی دھڑکنیں کئی روز تک ’’مریمؔمریم میری مریم‘‘ کی لے پر چلتے چلتے رواں ہوگئیں توڈاکٹروں کو اس کے زندہ بچ جانے پر شدید حیرت ہوئی۔
’’کرشمہ ہوگیا مریمؔ !اس مریض کی حالت بہتر ہوتی جارہی ہے۔‘‘ڈاکٹررابرٹ نے مریمؔ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
کئی دنوں تک ڈاکٹروں نے اس پرخصوصی توجہ دی ،مختلف انویسٹی گیشن ہوئے، ہرطرح کی جانچ کے بعد سبھی اس نتیجے پرپہنچے کہ مریض نے اپنے اندرغیرمعمولی ریزسٹینس پیداکرلیا ہے۔ اب وہ غیرمعمولی طورپر خوش مزاج بھی ہوگیا تھا۔ کبھی کبھی مریمؔ سے مذاق بھی کرلیتا۔ وہ بھی مسکرا کر جواب دیتی۔ کئی روز تک دل ہی دل میں ان جملوں کو ترتیب دیتارہتا جواسے مریم سے کہنے ہوتے۔ وہ چاہتا کہ ایسی بات کہے جس سے اس کے دل کی حالت بھی بیان ہوجائے اورمریم برابھی نہ مانے۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے اس پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی تھی۔ جب بھی مریم ؔڈاکٹررابرٹ کے ساتھ ڈیوٹی پرہوتی تواسے سب سے بڑی دشمن نظرآتی، اس سے نفرت ہونے لگتی ،جی چاہتا کہ وہ مریم کوقتل کردے۔ وہ خود کوقابو میں رکھنے کی کوشش کرتا مگرایک روز جب اس نے دیکھا کہ مریم اس کے بستر کے پاس کھڑی رپورٹیں دیکھنے کے بجائے خودسپردگی کے اندازمیں ڈاکٹررابرٹ کی آنکھوں میں جھانک رہی ہے اورڈاکٹررابرٹ نے اس کاہاتھ پکڑ کرآہستہ سے دبادیا ہے ،تووہ خود کو قابو میں نہ رکھ سکا اورسرہانے رکھے گل دان کودیوار پراتنی زور سے دے مارا کہ کانچ کاایک بڑا ٹکڑا اچٹ کر مریم کے ماتھے پر جالگا اور چہرے پرخون کی ایک لکیر کھنچ گئی ۔ڈاکٹررابرٹ نے سخت لہجے میں کہا۔’’اس مریض کو ڈسچارج کردینا چاہیے۔ اب یہ ہمارا کیس نہیں۔ کسی مینٹل ۔۔۔‘‘
’’نہیں رابرٹ اسے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ اسے اپنی پچھلی زندگی سے نئی زندگی کی کڑیاں ملانے میں دقّت ہورہی ہے۔ اگرہم بھی ۔۔۔‘‘اورپھرتم اچھی طرح جانتے ہو کہ علاج رکنے پر یہ بچ نہیں پائے گا۔‘‘
’’مریمؔ تم اسے کچھ زیادہ ہی ۔۔۔‘‘
’’اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی ہے رابرٹ، اورجانتے ہو اس نے اپنی کہانی صرف مجھے سنائی ہے۔ جب میں نے کرسمس پراسے ایک رومال لاکردیاتھا تواس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تھے۔ اسی رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے کہاتھا۔‘‘
’’پہلی بار نکلے ہیں۔ اس میں بھی ایک مزہ ہوتا ہے، مجھے احساس ہی نہیں تھا۔‘‘
رابرٹ نے جیب سے رومال نکال کرمریمؔ کے ماتھے کاخون پونچھا۔ ’’چلو پہلے ڈریسنگ کروالو۔‘‘اوروہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔ کئی دن بعد جب مریم آئی تو وہ نظر یں جھکائے بسترپربیٹھاتھا ۔ مریمؔ قریب آکرکھڑی ہوگئی، وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ مریمؔ نے اس کی پیٹھ پرہاتھ رکھ دیا۔‘‘ویری گڈ۔ مجھے یقین ہے اگرتم اسی طرح بیماری سے لڑتے رہے تو ایک دن بالکل ٹھیک ہوجائو گے۔‘‘
اس نے مریم کی طرف دیکھا، دل میں خواہش جاگی کہ اس کے ماتھے پر بندھی پٹی کو سہلائے۔ ہاتھ اٹھامگر کپکپا کر رہ گیا۔
اس طرح بیماری سے لڑتے رہے توایک دن بالکل ٹھیک ہوجائوگے۔‘‘ مریم کا جملہ ذہن میں گونجنے لگا۔
’’کیامیں سچ مچ ٹھیک ہوجائوںگا!‘‘
یہ خیال مزید پریشانی کاباعث بنا ۔وہ دن بھر بے چینی کی حالت میں ادھراُدھر ٹہلتارہا۔
شام ہونے کوتھی ،ہواتھمنے لگی تھی، مگرکبھی کبھی تازہ پھولوں کی خوشبو لیے ہواکاجھونکا کھڑکی سے داخل ہوتا لیکن وارڈ کی بیمارفضا سے گزرکر اس کے بسترتک پہنچتے پہنچتے دم توڑدیتا اوراسے احساس ہوجاتا کہ یہ اسپتال ہے، ہنڈولے کی طرح جھولتا کوئی خوبصورت فلیٹ نہیں۔ اس نے وارڈ میں چاروں طرف نظریں گھمائیں، اب پوری طرح شام ہوچکی تھی۔ مدھم روشنی کے بلب جل رہے تھے۔ کھڑکی کے باہر یوکلپٹس کے درخت کی شاخیں جھول رہی تھیں۔ وہ اٹھااور ٹہلتا ہوا بالکونی میں چلاگیا۔ نیچے دورتک سیاہی مائل سبزہ پھیلا ہواتھا۔
’’باہر زندگی کتنی خوبصورت ہے؟‘‘ یہ خیال آتے ہی اسے اپنا جسم روح کااندھیرا قیدخانہ محسوس ہوا۔ وارڈ کے نیچے ددر تک اندھیرا چھایاہواتھا۔ اس نے دیکھا کہ اندھیرے میں بنتے مٹتے سائے پھراسی ہنڈولے کی طرح جھولتے فلیٹ کی سی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ مریم نے مہین نائٹی پہن رکھی ہے ۔ بال شانوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ اس نے اپنی انگلیاں مریم کے بالوں میں پروئیں۔
’’یاتویہ مریم کے بال نہیں یامیری انگلیاں نہیں۔‘‘ غورسے دیکھا رابرٹ بڑے پیار سے مریمؔ کی زلفیں سہلارہا تھا۔ ڈرائنگ روم میں لٹکا فانوس اچانک گل ہوگیا۔ فانوس گل ہوتے ہی اندھیراچھانے کے بجائے اس کی آنکھیں تیز روشنی سے چندھیاگئیں۔ دراصل نرس نے اسپتال کی بالکونی میں لگے بلب کوروشن کردیاتھااور بالکونی کابلب روشن ہوتے ہی فلیٹ کا فانوس گل ہوگیاتھا۔
’’آپ یہاں۔۔۔؟ بہت رات ہوگئی ہے، اب آرام۔۔۔‘‘
’’نرس ،ڈاکٹرمریم آج بھی رات کی ڈیوٹی پرنہیں ہیں نا۔‘‘
’’ہیں۔ بہت سی کتابیں لیے بیٹھی ہیں اورآپ کی فائل منگائی ہے۔‘‘
’’اکیلی ہیں؟‘‘
’’نہیں ڈاکٹررابرٹ بھی ہیں۔‘‘
’’رابرٹ۔۔۔؟‘‘
’’ہاں، وہ اکثررات کوآدھے ایک گھنٹے کے لیے وارڈ میں آجاتے ہیں، اگرڈاکٹرمریمؔ ڈیوٹی پرہوں۔۔۔‘‘نرس نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔ بالکونی میں لگابلب خود بخود بجھ گیا یااس نے سوئچ آف کردیاتھا ،نرس یہ نہیں دیکھ پائی اورمسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
اس کے بعد کئی دن تک اسے نیند نہیں آئی۔ دل کی رفتارمیں فرق آگیاتھا۔ آج رات بھی وہ بستر پرلیٹاکروٹیں بدل رہا تھا۔ ڈیوٹی روم میںمریم اوررابرٹ کافی پی رہے تھے۔ باہرموسم خراب تھا۔ ہواکے تیز جھونکے وارڈ کی کھڑکیوں سے ٹکرارہے تھے کہ ایک زوردار چھناکا ہوا۔ ایک کھڑکی کے شیشے ٹوٹ کربالکونی کے نیچے بکھرگئے، وہ اٹھا اورجھانک کردیکھا ،شیشے کی کرچیں منہ اٹھائے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ نہ فلیٹ ہے ،نہ ڈرائنگ روم۔ نہ دیوارپرلگی پینٹنگ ہے، نہ مریمؔ اورنہ وہ خود۔ صرف شیشے کی کرچیں ہیں اورکچھ نہیں ۔ وہ دیر تک شیشے کی بکھری کرچوں کوگھورتارہا ۔رابرٹ اورمریم دونوں نے اسے بالکونی میں کھڑا دیکھا۔
’’رابرٹ چلوباہر چلتے ہیں۔‘‘
اس موسم میں؟کہاں؟‘‘
’’کہیں بھی ۔ کینٹین۔‘‘
’’ابھی توکافی پی ہے۔‘‘
’’چلوبھی ،کہیں بھی چلتے ہیں۔بس باہر۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
اوروہ دونوں وارڈ کی سیڑھیاں اترتے اسپتال سے باہر نکل آئے۔
’’مریم ،ہواکی سنسناہٹ میں بھی ایک رومانس ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ہوسکتا ہے !‘‘
’’ہوسکتا ہے کیامطلب ،ہوتاہے۔‘‘
’’رابرٹ جب ہواتیز چلتی ہے تومجھے لگتا ہے کہ سب کچھ ایک ہی رفتارسے چل رہا ہے۔ یعنی سب کچھ اپنی جگہ ٹھہر گیا ہے۔ دل پرچھائی اداسی کی طرح۔ ‘‘
’’پتانہیں!‘‘ رابرٹ نے بے پروائی سے جواب دیا۔
‘‘رابرٹ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں اوروہ بھی اسپتال کے ایٹ موسفیئر سے دور۔‘‘
’’توچلو نائٹ کلب چلتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ،وہاں بہت بھیڑ ہوتی ہے ۔کسی ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں۔‘‘
’’ریگل؟‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘اوروہ دونوں ریگل کے ایک کونے والی میز پر بیٹھ گئے ۔ ریستوراں کے نیم تاریک ماحول میں دونوں تھوڑی دیرخاموش بیٹھے رہے۔
مریمؔ نے رابرٹ کے چہرے پرنظریں جمائیں۔ وہ بہت بیمار لگ رہاتھا۔ رابرٹ ہی کیوں آج تواسے ہرشخص بیمار لگ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ بیماروں کے لیے ہمدردی اورخدمت کاجذبہ پہلی بار اس کے دل میں پیدا ہوا ہے۔ ہاتھ کپکپانے لگا اور دھیرے دھیرے کھسکتا ہوا رابرٹ کے ہاتھ کے اوپر جاکر ٹھہرگیا۔
’’کیابات ہے مریم؟‘‘
’’میں بہت الجھن میں ہوں۔‘‘
’’کیوں ۔۔۔؟‘‘
’’رابرٹ۔۔۔کیاتم۔۔۔آئی مین۔۔۔‘‘
’’یس، میں ۔۔۔میں۔۔۔آئی مین ۔۔۔آئی لو یو۔‘‘
مریم کولگا کہ رابرٹ کاہاتھ انگارے کی طرح دہک رہا ہے۔ میز پر رکھی کافی کی پیالیوں سے دھواں اٹھ رہاتھا اورآہستہ آہستہ جھاگ بیٹھتے جارہے تھے کہ مریم رابرٹ کی طرف جھکی اوراس کے کندھے پر سرٹکاتے ہوئے بولی۔’’جتناتم میرے قریب آرہے ہو ،میں تم سے دور ہوتی جارہی ہوں۔‘‘
رابرٹ نے اپنی گرم ہتھیلی سے مریم کے چہرے کوتھپتھپاتے ہوئے کیاکہا، یہ تو وہ سن نہیں سکی لیکن اب اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے۔
’’میں سمجھتا تھا تم مضبوط عورت ہو۔‘‘
’’اتنی کمزور بھی نہیں ہوں، لیکن سب اتنے مضبوط نہیں ہوتے۔‘‘
’’سب کون؟‘‘ رابرٹ نے کافی کی پیالی اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔
’’رابرٹ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘پیالی کوہونٹوں تک لے جاتے لے جاتے اس کاہاتھ رک گیا۔ بغیر سِپ لیے ہی پیالی کومیز پر رکھ دیا اورسنبھل کر بیٹھ گیا۔
’’تم کیاکہناچاہتی ہو؟‘‘
مریم نے اپنے ماتھے پرلگی چوٹ کے نشان کوچھوتے ہوئے کہا۔’’وہ بہت کمزور ہے۔‘‘
’’وہ۔۔۔وہ کون؟تم اس کانام جانتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔وہ۔۔۔وہ ایک مریض ہے۔‘‘
’’یہی تومیں کہنا چاہتا ہوں ۔وہ صرف ایک مریض ہے ۔کچھ دن میں ٹھیک ہوکر چلاجائے گا۔‘‘
’’نہیں رابرٹ ، وہ جب تک ٹھیک نہیں ہورہاہے ،تبھی تک زندہ ہے۔ جس دن ٹھیک ہو گیا، مرجائے گا۔ میں نے اس کے درد کومحسوس کیا ہے، اسے سمجھا ہے۔ وہ اپنی ایک دنیا بساچکا ہے ۔اس کے ٹھیک ہوتے ہی شاید وہ دنیااجڑجائے گی اور ۔۔۔‘‘
’’مریم اسے سمجھائو، وہ تمہاری بات سمجھتا ہے۔ وہ دنیا خوابوں کی دنیا ہے، اصل دنیا نہیں۔‘‘
’’بات اسے سمجھانے کی نہیں، تم سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’میں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں رابرٹ۔ میری محبت اپنے آپ میں کچھ نہیںہے۔ اس کاہونا نہ ہونا کسی کی ضرورت پرڈپینڈ کرتا ہے ،اوراسے میری ضرورت ہے۔‘‘
’’مریم تم نے زندگی کوسمجھاہی نہیں ۔جذباتی ہوکرزندگی کوسمجھا بھی نہیں جاسکتا۔ ہم ڈاکٹر ضرور ہیں۔ مریضوں کے لیے بہت کچھ کرناہماری ڈیوٹی ہے مگرہماری بھی زندگی ہے ۔ہم اسے اپنے ڈھنگ سے گزارتے ہیں۔‘‘
’’رابرٹ نہیں ۔شاید زندگی وہ نہیں جو ہم گزاررہے ہیں اصل زندگی وہی ہے جو وہ جی رہا ہے۔‘‘
رابرٹ ہنس دیا اورمریم کوآغوش میں سمیٹتے ہوئے شرارت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’اس میں ایسا کیا ہے ،جوہم میں نہیں ۔۔۔؟‘‘یہ پوچھ کر شاید اس نے سنجیدگی کوتوڑنے اور موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی لیکن مریم نے مزید سنجیدہ ہوکر جواب دیا۔
’’پتا نہیں؟بس اتنا جانتی ہوں کہ جب وہ مجھے تمہارے ساتھ دیکھتا ہے تواس کے اندرآگ سلگنے لگتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے نفرت جھلکتی ہے۔ اس وقت مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے وہ میرا گلا دبادے۔‘‘ رابرٹ نے زور دار قہقہہ لگایا ،دوسری میزوں پر بیٹھے لوگوںنے مڑکر اس طرف دیکھا اور وہ گھبرا کرباہرلان کی طرف جھانکنے لگا۔
’’ہواتھم گئی ہے، لان میں چلتے ہیں۔‘‘
لان میں ایک چھوٹاسا سوئمنگ پول تھا۔ صاف شفاف پانی میں چاند کاعکس پڑرہا تھا۔ جوچاند آسمان پر سفید تھاوہ پانی میں زرد دکھائی دے رہا تھا۔ آسمان کے چانداور پانی کے چاند کے فرق سے مریمؔ اچھی طرح واقف ہوچکی تھی۔ رابرٹ مریمؔ کے دونوں کندھوں کوپکڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ مریم کے ہونٹ کپکپائے، آنکھیں بند ہونے لگیں تورابرٹ نے اپنے سخت ہونٹ اس کے ہونٹوں پررکھ دیے۔ مریم نے آنکھیں کھولیں اورآسمان کی طر ف دیکھا۔ چاند کارنگ اور زیادہ نکھر آیاتھا۔ مریمؔ نے رابرٹ کے بالوں کومٹھی میں بھرااوراس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبالیے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھے چاند کے زردعکس کوگھوررہے تھے۔
’’پتانہیں رابرٹ، سچ کیا ہے؟ وہ بھی سچ ہے۔‘‘ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔’’اوریہ بھی سچ ہے۔‘‘ پانی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔
’’تم جانتی ہوہم جلدی ہی شادی کرنے والے ہیں ۔پھریہی سب ۔۔۔؟‘‘
’’رابرٹ اگرمیں تم سے شادی کربھی لوں تویہ اسی طرح ہوگا جیسے ہم پانی کے چاند کو دیکھ کر سمجھیں کہ یہ ہماری دنیا میں روشنی بکھیررہا ہے اوریہ بھول جائیں کہ اصل چاند توآسمان میں ہے، ہم سے بہت دور۔‘‘
’’لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تم اس چاندکوپکڑنے کی کوشش کررہی ہو جو ہے ہی نہیں۔‘‘
اچھامریم اب اس بات کویہیں ختم کرو۔‘‘
’’میں بھی یہی کہتی ہوں، اس بات کویہیں ختم کرو۔‘‘
’’مریمؔ۔۔۔‘‘اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔’’تم خود کودھوکادے رہی ہو۔ وہ ایک مریض ہے۔ پتانہیں کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟کیاتم اس کے ساتھ ۔۔۔‘‘
’’معلوم نہیں ۔بس اتنا جانتی ہوں کہ جب پتاچلا کہ دنیامیں اس کاکوئی نہیں۔ وہ تنہا ہے تومجھے لگا کہ میں اس کے ساتھ ہوں ۔میں نہیں سمجھ پاتی کہ یہ کیا ہے۔؟‘‘
’’یہ کچھ نہیں ہے ۔تم ایک نرم دل عورت ہو، اس پرترس کھانے لگی ہو۔ تم جانتی ہوکہ اس نے اپنے اندرجوریزسٹینس پیدا کرلیا ہے اس کی وجہ تم ہوااوراب اگروہ مرا توتمہاری ہی وجہ سے مرے گا، اورتم یہی نہیں چاہتیں ۔لیکن تمہیں نہیں معلوم کہ اس کو بچانے کی کوشش میں تم ختم ہورہی ہو۔‘‘
مریم اٹھی ،آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کرسمس کے درخت کے نیچے جاکر کھڑی ہوگئی اورسوچنے لگی کہ یہ درخت اپنی جڑیں گہرائی تک زمین میں اتارتے چلے جاتے ہیںاورخودآسمان کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ ان کاسفر دونوں سمتوں میں ہوتا ہے۔ مگرمجھے ایک ،صرف ایک طرف بڑھنے کافیصلہ کرنا ہے۔ اس نے مڑکر دیکھا، رابرٹ تھکاہارا ساایک بینچ پر بیٹھا دکھائی دیا۔ دل بھرآیا ،قدم خود بخود اس کی طرف بڑھنے لگے۔ آسمان پرنگاہ کی۔ بادل کے ایک سیاہ ٹکڑے نے چاند کواپنے اندر چھپالیا تھا۔ چاروں طرف اندھیرا تھا، گہرا سناٹاتھا اور سناٹے میں بس ایک آواز گونج رہی تھی۔’’اسے بچانے کی کوشش میں تم ختم ہورہی ہو مریم ۔۔۔تم ختم ہورہی ہو۔‘‘
’’نہیں، میرابچنا ضروری ہے ۔اسے بچانے کے لیے بھی میرا بچنا ضروری ہے۔‘‘
مریم کی رفتارمیںتیزی آگئی اور وہ چند لمحوں میں رابرٹ کے قریب جاپہنچی ۔اس کاہاتھ پکڑکوبولی۔
’’چلو بہت دیر ہوگئی ہے۔‘‘
رابرٹ نے بھی آہستہ سے مریم کاہاتھ پکڑ لیا۔ مریم نے محسوس کیا کہ اتنی نرمی اور اتنی مضبوطی سے رابرٹ نے پہلی بار اس کاہاتھ پکڑا ہے۔ بیک وقت نرمی بھی اورسختی بھی ۔ زندگی کے اس پہلو کی حقیقت اب اس پر رفتہ رفتہ کھل رہی تھی۔ وہ رابرٹ کے قریب آگئی اور دھیرے سے بولی۔
’’رابرٹ یہ ہاتھ اسی طرح زندگی بھرتھامے رہنا۔‘‘
’’تم بھی وعدہ کرو، کبھی چھڑانے کی کوشش نہیں کروگی۔‘‘
’’وعدہ کیا۔‘‘
اب وہ دونوں زیادہ دیرسنجیدگی قائم نہیں رکھ سکے اورکھلکھلاکر ہنس پڑے۔
سیاہ بادل کی اوٹ میں چاند کے چھپتے ہی بہت سے چھوٹے چھوٹے تارے اپنے وجود کا احساس کرانے لگے تھے۔ تارے آسمان پرچمک رہے تھے لیکن ان دونوں کولگ رہا تھا کہ ان کی راہ میں بکھرے پڑے ہیں۔ گویاوہ زمین پر نہیں ،آسمان پر چل رہے ہوں۔ اب وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سرکاری اسپتال کی طرف لوٹ رہے تھے ۔چاہتے تو تھے کہ سفر کبھی ختم نہ ہو مگر تھوڑی ہی دیر میں اسپتال کے گیٹ پر جاپہنچے۔ سیڑھیاں چڑھ کر وارڈ میں داخل ہوئے ۔مریض سوچکے تھے ، ڈیوٹی روم کادروازہ کھلا ہواتھا، وہ اندر چلے گئے۔
میز پر اس مریض کی فائل کھلی پڑی تھی۔ کھڑکی سے آسمان پر چمکتا چاند صاف دکھائی دے رہا تھا۔ بادل کا سیاہ ٹکڑا کہیں اورجاپہنچا تھا۔ مریم ؔنے میز پر پڑی فائل کواٹھایا اور مختلف رپورٹوں کوغورسے دیکھنے لگی۔ رابرٹ نے بھی اپنی کرسی اس کے قریب کھینچ لی ۔چند لمحوں بعد دروازے پر آہٹ ہوئی۔پھریہ آہٹ باربار ہونے لگی۔ باہراندھیرا تھا۔ جھانک کر دیکھا ایک سایہ نظرآیا، انھیںمحسوس ہوا کہ کوئی شخص دروازے تک آتا ہے، سامنے سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے مگراس کے پائوں کپکپاتے ہیں اور واپس لوٹ جاتا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اوربہت دیر تک دیکھتے رہے۔ باہر وہی آنے اورلوٹ جانے کاسلسلہ جاری تھا کہ ایک زوردار آواز ہوئی، کھڑکی سے ٹوٹ کرشیشے کے گرنے کی سی آواز ۔مریم اور رابرٹ گھبراکر کیبن سے نکل آئے ۔مریمؔ کے ہاتھ میں اس کی فائل تھی۔
’’کیاہوا؟ یہ کیسی آواز تھی۔۔۔کون ہے وہاں؟‘‘
مریم کی آواز کانپ رہی تھی ۔وارڈ کے کچھ مریض بھی جاگ گئے ،نرس آگئی۔ وارڈ میں سارے مریض موجود تھے ، صرف وہ غائب تھا۔ ڈاکٹر رابرٹ اورمریم نے بالکونی سے جھانک کردیکھا ،زمین پر ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے پڑے تھے اورجگہ جگہ خون کے نشان تھے۔
’’مریم یہ خون کے نشان۔۔۔؟‘‘
’’ہاں رابرٹ وہ بالکونی سے کود کر بھاگا ہے ،ننگے پائوں۔‘‘
’’لیکن کیوں ۔۔۔؟‘‘
’’زینے کے راستے میں ہماراکیبن تھا اورشاید اس کوپارکرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اسی لیے ۔۔۔‘‘
’’لیکن کیاوہ نہیں جانتا تھا کہ بیچ میں علاج چھوڑ کر چلے جانا، موت کوبلانا ہے۔‘‘
’’جانتاتھا ،اسی لیے چلاگیا۔‘‘
مریم نے گہری سانس لی اورایک بارپھر خون کے نشان دیکھنے کے لیے نیچے جھکی۔
’’وہ دیکھو رابرٹ ۔۔۔کچھ دور جاکریہ نشان غائب ہوگئے ہیں ۔۔۔‘‘
رابرٹ نے مریم کاہاتھ تھام لیا۔ مریمؔ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولی۔’’زخمی پیروں پرمردہ کھال کے جوتوں کا خول چڑھا کر سمجھا ہوگا کہ شاید سفر آسان ہوجائے ۔۔۔‘‘
مریمؔ کیس ہسٹری کی فائل لیے بالکونی میںگم صم کھڑی تھی ۔رابرٹ نے مریم کے ہاتھ کو ،جسے اس نے پہلے تھام رکھاتھا ،مضبوطی سے پکڑلیا۔ مریم کی گرفت فائل پرڈھیلی پڑنے لگی کہ ہوا کا تیز جھونکا آیا۔ فائل کے کاغذ اڑے اورایک ایک کرکے بالکونی کے نیچے پڑے خون سے سنے شیشے کی کرچوں کے ننگے بدن کوڈھکنے لگے ۔ مریمؔ نے آہستہ سے رابرٹ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑالیا اورواپس وارڈ میں آنے لگی ۔۔۔ رابرٹ جو سمجھاتھا کہ ہمیشہ کے لیے اس نے مریم کاہاتھ تھام لیا ہے ،تنہا بالکونی میں کھڑا رہ گیا۔
وارڈ میں پہنچ کرمریمؔ نے دیکھا کہ وہ رومال جواس نے کرسمس کے موقع پر اس مریض کودیاتھا، بڑے سلیقے سے بستر پر رکھا ہوا ہے۔ وہ لمحے بھر کے لیے رکی اورپھرتیزی سے اپنے کیبن کی طرف چل پڑی۔


لکیر


آج سورج غروب ہونے سے پہلے بادلوں بھرے آسمان پرعجب طرح کا رنگ چھاگیا تھا ۔یہ رنگ سرخ بھی تھا اور زردبھی۔ ان دونوں رنگوں نے آسمان کودرمیان سے تقسیم کردیاتھا۔ جس مقام پر دونوں رنگ مل رہے تھے، وہاں ایک گہری لکیر دکھائی دیتی تھی۔ دھیان سے دیکھنے پر محسوس ہوتا کہ لکیر کے آس پاس کچھ سفید سائے ابھررہے ہیں ۔سفید سایوں میں جب حرکت ہوتی تویہ رنگ اوربھی گہرا ہونے لگتا اورپوری فضا پرخوف وہراس طاری ہوجاتا ۔ آج سے پہلے اس قصبے کے آسمان پر کبھی سفید سائے سرخ اورزردرنگ بکھیر نے میں کامیاب نہیں ہوپائے تھے، مگر آج۔۔۔
اس خوفناک شام کی صبح ایسی نہیں تھی ۔ہاں اتنا ضرورتھا کہ سویرے سے ہی بادل چھائے ہوئے تھے مگرابھی تک ابرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کسی سائے نے نواس نہیں کیاتھا۔ سائے جوبظاہر سفید تھے مگرباطن میں سیاہی چھپائے پچھم کی جانب سے ابھر کر دھیرے دھیرے آکاش کے پوربی حصے پر پائوں جمانے لگے تھے۔ سفید سایوں کے آکاش پر چھانے سے پہلے ،بادلوں کے ٹکڑے آپس میں کھیلواڑ کرتے کرتے ایک دوسرے میں مدغم ہوجانے کی کوشش بالکل اس طرح کررہے تھے جیسے بستی کے ہندومسلمان ،پنڈت برج کشور کے انتہائی جتن کے بعد ،بھید بھائو کی لکیروں کوپھلانگ کر،ایک دوسرے میں سماتے جارہے ہوں۔
بھادوں لگے سات دن گزرگئے ہیں، کل کرشنااشٹمی ہے۔ لہٰذا شام ہی سے مندر کو سجایا جارہا تھا ۔مندر کے بیچ والے کمرے میں چمکیلے رنگین کپڑوں میں لپٹے جھولے پر پڑے چھوٹے سے کھٹولے میں رکھی کرشن بھگوان کی مورتی کوبڑی عقیدت سے سجایاگیا تھا۔ رات بارہ بجے کرشن بھگوان کاجنم ہوگا، اس کی خبر علاقے کے ہندومسلمان سبھی کوتھی ۔ اس بار حمید بڑی بے چینی سے جنم اشٹمی کاانتظارکررہاتھا۔ حمید، فقیرمحمدکالڑکا تھا اور مسجد کے مکتب سے بھاگ کرا پنے پڑوسی پنڈت برج کشور کی پاٹھ شالا میں پڑھنے بیٹھ گیاتھا۔ پنڈت برج کشور بھی اسے سبھی بچوں سے زیادہ پیار کرتے تھے اور کنہیّا کہہ کر پکارتے تھے ۔ جنم اشٹمی کے انتظارمیں اس کے اندر بہت سے خواب کرشن بن کر جنم لے رہے تھے اوروہ ان کوخیالوں کے ہنڈولے میں بٹھا کر جھولا جھلارہا تھا۔
’’نہیں حمیداتنے لمبے پینگ نہیں۔۔۔‘‘ اس روز کُسم نے کہا تھا اور پھرحمید نے جھونٹے دینے بند کردیے تھے۔ کسم پنڈت برج کشور کی لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ نیم کی ڈال پر پڑے جھولے سے اتری توحمید نے کرتے کے چاک کی جیب سے نبولیاں نکال کر اسے دے دیں۔ پکی نبولیاں کھانے کا اسے اتنا ہی شوق تھا جتنا حمید کوبانسری بجانے کا ۔۔۔بانسری کی آواز سن کر پنڈت برج کشور نے گھوم کر دیکھا۔ کسم پیتل کی گگری میں پانی بھررہی تھی اورحمید آنکھیں بند کیے کنویں کے من پربیٹھا بانسری بجارہا تھا۔ پنڈت جی مسکراتے ہوئے اٹھے اور کنویں کے پاٹ پرپہنچ کر حمید کے سرپر ہاتھ رکھ دیا۔
’’توسچ مچ کنہیاہے۔۔۔بالکل کنہیا ۔اب کے جنم اشٹمی پر تجھے ہی کرشن بناکرڈولے پربٹھائوںگا۔‘‘
حمید کولگا کہ وہ کرشن بن کرڈولے پربیٹھا مرلی بجارہا ہے۔ ڈولے کے چاروں طرف پنہارنیں ،ماکھن والیاں اورجوگنیں گھیراڈالے کھڑی ہیں۔ اس کی نظریں بھیڑ کو چیرتی ہوئی کسم کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ وہ غورسے دیکھتا ہے، بہت سی عورتیں دوپٹے اوڑھے اورریشمی غرارے پہنے جازم پربیٹھی میلا دپڑھ رہی تھیں۔ کسم اماں جان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔ کئی عورتیں جب ایک ساتھ میلاد پڑھتی ہیںتوساتھ ساتھ کسم کے ہونٹ بھی ہلتے نظرآتے ہیں ۔ کسم کے ہونٹ ہل رہے ہیں، حمید کے ہونٹوں پر مرلی دھری ہے۔ مُرلی بج رہی ہے یاکسم میلاد پڑھ رہی ہے؟ معلوم نہیں۔ہاں ایک شور ہے ۔اس کے اندر اس کے باہر ۔بچوں کا شور۔ شاید چھٹی ہوگئی ہے۔ بچے شورمچاتے اپنے اپنے گھرجارہے ہیں، وہ چونکا اورپنڈت برج کشور کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ پنڈت جی مندرکے اس کمرے میں گئے جہاں کرشن بھگوان کی مورتی ہروقت ہونٹوں پر مرلی دھرے رہتی ہے۔ حمید دروازے پر جاکر رک گیا اورمورتی کوگھورنے لگا۔ پنڈت جی نے جل چڑھایا آرتی اتاری اورپھروہ آنکھیں بند کر کے پوجاکرنے لگے۔ حمید بھی پرارتھنا کررہاتھا۔
’’اللہ میاں جلدی سے جنم اشٹمی آئے اور میں مکٹ پہن کر کہنیا بنوں اوربانسری ۔۔۔‘‘
اس کاداہناپائوں بائیں پیرکوپارکرکے پنجے کے بل ٹک گیا۔ جی چاہا کہ مورتی والی بانسری لے کر اپنے ہونٹوں پررکھ لے۔ اس کادل بے چین تھا۔ کہیں سے گڑگڑاہٹ کی آواز آرہی تھی۔ پھراس نے ایک دن اوپر دیکھاتوآسمان پر بادل گرج رہے تھے ۔ بارش کے آثار ہیں۔ آخر کنہیا جی کے لتّے دھلنے ہیں، کل جنم اشٹمی ہے ۔حمید کی بے چینی دورہوئی ،آخروہ دن آہی گیا جس کااسے سال بھر سے انتظارتھا۔
اب رات ہوچکی تھی۔ اس کی آنکھوں کی نیند کرشن بھگوان کی مرلی کے سربن کر بجنے لگی ۔ مرلی بجتی رہی اوروہ کسم کے سنگ رات بھر مندرکے احاطے میں جمنا کی لہروں کی طرح اچھلتا کودتارہا۔ مندرکی عمارت اورپاٹھ شالا کے علاوہ احاطے میں ایک دالان بھی تھا، جس کی چھت بہت اونچی تھی۔ چارپہیوں کارتھ نما ایک ڈولا جولکڑی کابناتھا مگرپیتل کی نقشیں پتریں جڑی ہونے کی وجہ سے پیتل کا معلوم ہوتاتھا،اسی دالان کے ایک کونے میں رکھاتھا۔ حمید کھیلتے کھیلتے ڈولے کے بیچوں بیچ بنی کرسی پرجا بیٹھا ۔اسے لگا کہ یگ بیتتے جارہے ہیں۔ وہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی انگلی پرایک چکر ہے جوتیزی سے گھوم رہا ہے۔ اس کا وجود کائنات کے ذرّے ذرّے میں سماتا جارہا ہے۔ آنکھیں کھلی ہیں۔ وہ سنسار کی ہرچیز کو دیکھ سکتا ہے۔ سورج کی شعاعو ں کو، تاریک اورسیاہ راتوں کو۔ پھردھیرے دھیرے رات اس کی آنکھوں میں اترنے لگی اورجب بیل گلے میں بندھے گھنگھروبجاتے کھیتوں کی جانب چل دیے اورمندر کے گھنٹے اورمسجد کے موذّ ِن نے صبح کا اعلان کردیا تو حمید پنڈت برج کشورکی گود میں جاکر سوگیا۔ حمیدکارات بھرگھرسے غائب رہنا، دودوتین تین دن تک غائب رہنا، فقیرمحمد کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ رہس ہو، کرشن کتھا ہویاراس لیلا ،حمیدگھرسے غائب ۔ جنم اشٹمی پر بھی لوگ رات بھر مندرمیں جمع رہتے ،مندرکوسجایا سنواراجاتا اورآدھی رات کوکرشن بھگوان کے جنم کی رسم اداہوتی ۔حمیدبھی پچھلے کئی سال سے کُسم سے کھیلتے کھیلتے مندرمیں ہی رہ جایاکرتا۔
رات کے دوسرے پہر کی رخصت اورتیسرے پہر کی آمد کااعلان پنڈت برج کشورنے شنکھ بجا کر کیا۔ تھال میں سجا پرساد بھگوان کی مورتی کے سامنے رکھاتھا۔ پنڈت جی نے دیکھا کہ چاندآسمان پرپائوں جماچکا ہے۔ کبھی کبھی بادلوں کے ٹکڑے گھونگھٹ بن کرچاند کے چہرے کوچھپا لیتے ہیں۔ چاند نکلنے کی کوشش کرتا ہے پھر چھپ جاتاہے گویاننھے کشن گوپیوںسے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں ۔ مندر میں جمع لوگ کیرتن ختم کرکے برت کھولنے کے لیے جل سے بھرے پیتل کے لوٹے میں لونگ ،بتاشے اورپھول ڈالتے ہیں اورپھر چاند کی طرف رخ کر کے دھرتی پر جل گراتے ہیں۔ جل دھرتی پر گررہا ہوتا ہے لیکن ان کی شردھا سوکھے اورپنجر چاند کو سینچ رہی ہوتی ہے۔ حمید سب سے پہلے پرساد لینے کی کوشش میں بھیڑ کو چیر کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ پنڈت جی اس کے چہرے پر چاند کی سی چمک دیکھتے ہیں اوراس کے ہاتھ پرپرساد رکھ دیتے ہیں ۔کسم اس کے برابر کھڑی ہے۔ وہ کسم کواپنے حصے کاپرساد دے دیتا ہے اوروہ مٹھی بند کرکے آنکھیں موند لیتی ہے۔
’اماں جان نے بڑے پیارسے کسم کومیلاد کاتبرک دیاہے۔ کسم دونوں ہاتھوں میں تبرک لیے آنکھیں موندے کھڑی ہے ۔ حمید بھی اس کے برابر کھڑا ہے۔‘
’’کھائو کسم، پرساد کھائو، کنہیا جی کے جنم کا پرساد ہے۔‘‘
وہ آنکھیں کھول کر حمید کی طرف دیکھتی ہے ۔ حمید پھرکہتا ہے۔
’’کھائو۔ جانتی ہوکل کیاہوگا۔‘‘
’’ہاں ۔۔۔‘‘وہ کہتی ہے۔’’کنہیا جی کے ڈولے کاگشت ہوگا۔‘‘
’’کُسم پتا ہے اس بارڈولے پرکشن بن کرکون بیٹھے گا؟‘‘
وہ حمید کی آنکھوں میں جھانکتی ہے اورجانے کیاسوچ کرہنس پڑتی ہے ۔۔۔ کُسُم کی ہنسی فضا میں تیرنے لگتی ہے اورپھر اس کے ننھے مُنے جگنوسے چمکتے قہقہے آسمان پر تارے بن کرٹنک جاتے ہیں۔ بادلوں سے جھانکتے تارے دھیرے دھیرے اپنا وجود کھونے لگتے ہیں۔ صبح ہوجاتی ہے اورپھرحمید دیکھتا ہے کہ مندرکے احاطے میں قصبے کے بخشی جی ،سیٹھ ڈونگرمل، ویدجی اور دوسرے ذمے دار لوگ جمع ہیں۔ پنڈت جی ان کے درمیان گھرے بیٹھے ہیں۔ بخشی جی پوچھتے ہیں۔
’’ہاں توپنڈت جی کس بچے کوچُناہے؟‘‘
پنڈت برج کشورکی آنکھوں میںحمید کاسانولا چہرہ اور اس کی معصوم شرارتیں رقص کرنے لگتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
’’کنہیّا ہی کرشن بنے گا۔‘‘
لوگ تعجب سے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگتے ہیں اورویدجی کے منہ سے نکلتا ہے :
’’کیا؟کنہیّا‘‘
پنڈت جی چونک پڑتے ہیں:’’میرامطلب ہے حمید ۔۔۔‘‘
’’حمید ! ۔۔۔‘‘بیک وقت کئی لوگوں کے منہ سے نکلتا ہے ۔ایک لمحے کے لیے خاموشی چھاجاتی ہے ۔یہ لمحہ صدیوں پرپھیل جاتا ہے ۔پھرایک آواز اٹھتی ہے اورخاموشی ٹوٹ جاتی ہے۔
’’لیکن لڑکا ہندو ہی ہوناچاہیے ۔۔۔‘‘
پنڈت برج کشور کچھ کہناہی چاہتے تھے کہ بخشی جی بول پڑے۔
’’پنڈت جی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جنم اشٹمی پرکرشن کسی مسلمان بچے کوبنایاگیا ہو ۔۔۔‘‘
سیٹھ ڈونگر مل نے بھی کنکھارتے ہوئے کہا۔
’’یہ توٹھیک ہے پنڈت جی کہ ہمیں بھید بھائو مٹادینے چاہئیں مگر ۔۔۔‘‘
’’مگرکیاسیٹھ جی؟ ‘‘پنڈت برج کشور بولے۔’’پچھلے برس کاناٹک اُتسوبھول گئے۔ کرشن کاپارٹ کرنے پر ڈپٹی صاحب نے اسے انعام دیاتھا ۔۔۔‘‘
’’ناٹک کی بات اورہے پنڈت جی ۔۔۔‘‘سیٹھ ڈونگرمل کی کرخت آواز نے پنڈت جی کے ذہن کوجھنجھوڑ دیا،مگر انھوںنے اپنی بات اس طرح جاری رکھی جیسے کچھ سناہی نہ ہو۔ بولے :’’اورپھردسہرے پر جورام لیلا منڈلی آئی تھی اس میں جس نے رام کاپارٹ کھیلا تھا وہ بھی تو مسلمان ہی تھا۔ کیاتم سب نے اس کی آرتی نہیں اتاری تھی۔ کیاراج تلک والے دن سب نے اس کے چرن نہیں چھوئے تھے۔ کیااس سمے تم نے اسے رام نہیں ماناتھا۔ ارے سیٹھ جی ہمارادھرم توکہتا ہے کہ چاہے پتھر ہو، چاہے مٹی۔ اب وہ جس روپ میں ہے وہی اس کااصلی روپ ہے ۔حمید تو ابھی بالک ہے اوربالک پوتر ہوتا ہے ۔ پھرکیوں اسے کرشن نہیں بناسکتے۔ وہ توکنہیّا ہے۔۔۔بالکل کنہیّا ۔۔۔‘‘ وہ پل بھر کورکے ،مستک پر پریم اوربھکتی کی لہریں ابھرنے لگیں، پھر منہ سے لاڈ بھرے یہ شبد نکل پڑے:
’’وہ تو کنہیا ہے ،ہمرا کنہیا ۔۔۔‘‘
کئی آوازیں ایک ساتھ ابھریں ۔’’یہ ٹھیک نہیں ہے پنڈت جی ۔اگرآپ نہیں مانے توڈولانہیں نکل پائے گا۔ ہم دیکھ لیںگے۔ ‘‘
اوراسی وقت پنڈت برج کشور نے آسمان کی طرف دیکھا۔ کئی سفید سائے آکاش سے اترکر بھیڑمیں شامل ہوتے نظرآرہے تھے۔
’’پنڈت جی سب آپ کاسمّان کرتے ہیں لیکن ۔۔۔‘‘
’’لیکن حمید کرشن نہیں بنے گا۔ یہی نا۔۔۔؟ اس دفعہ پنڈت جی کالہجہ سخت تھا۔ لیکن وہ فوراً ہی نرم ہوگئے اور بہت دیر تک لوگوں کوسمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخرکافی تکرار کے بعد انتخاب توحمید کاہی ہوا مگرکچھ لوگ مندرکے احاطے سے نکل کر چلے گئے ۔
پنڈت جی نے دوپہر سے ہی حمید کونہلادھلاکرکرشن کے روپ میں سجانا شروع کردیا تھا ۔پہلے پورے بدن پر ہلکا ہلکا نیل پوتا۔ مردار سنگ کو بھگوکر سل پرگھسا، پھرحمید کے چہرے پراس کالیپ کردیا۔ چہرہ خشک ہونے لگا توگلابی اورنیلا رنگ ملاکر رخساروں پر لگادیا۔ کمرمیں کاچھنی، گلے میںبیجنتی مال ،سرپر کارچوبی مکٹ، ہاتھ میں بنسی اورگردن کی بائیں جانب سے کمرکے داہنے حصے تک ایک چمکیلی چندری باندھ کر پنڈت جی نے اپنے کنہیا کوسچ مچ کا کرشن بھگوان بنادیا۔ کرشن بھگوان نے ہونٹوں پرچاندی کی وہ مرلی رکھ لی جس میں چھ راگ چھتیس راگنیاں بجتی تھیں ۔ پنڈت جی ہاتھ جوڑ کر ان کے آگے جھک گئے۔
’’آوپیارے موہنا پلک ڈھانپ توہے لیوں‘‘۔۔۔’’آئو۔۔۔‘‘
اورپھر پیتل کی تھالی میں گھی کادیا،پھول،بتاشے ،چاول اورپِسی ہوئی گیلی ہلدی رکھ کر کرشن بھگوان کی آرتی اتاری گئی۔ ماتھے پر ہلدی کاتلک لگا کر چاول کے دانے پر چپکادیے اورکرشن بھگوان کوڈولے کے بیچوں بیچ بنی کرسی پر بٹھادیاگیا۔ یگ بیتنے لگے ، شریر بڑھنے لگا، انگلی پرایک چکرتھا جوتیزی سے گھوم رہا تھا۔ اب کرشن بھگوان کاوجود کائنات کے ذرے ذرے میں سماتاجا رہاتھا۔ آنکھیں کھلی تھیں۔ وہ سنسار کی ہرچیز کو دیکھ سکتے تھے ۔سورج کی شعاعوں کو تاریک اورسیاہ راتوں کو ۔۔۔
رتھ کے پہیے گھومے ،آگے باجا پیچھے کیرتن منڈلی اورچرنوں میں آرتی کی تھالی لیے پنڈت برج کشور ۔۔۔ گشت شروع ہوا۔ شردھا لوآرتی اتارتے ،چڑھاوا چڑھاتے اور بھگوان کے پیرچھوکر ڈولے سے اترجاتے ۔ڈولاجب گلیوں اورچوپالوں سے گشت کرتے ہوئے مسجد کے قریب پہنچا توآسمان پرسورج بھی اپناگشت پوراکرچکا تھا اورموذّ ِن مغرب کی اذان دینے کے لیے سقاوے پرکھڑا ڈولے کے گزرجانے کاانتظارکرررہاتھا ۔یاترامسجد کے برابر آکرٹھہرگئی ۔کیرتن منڈلی بلندآواز میں کیرت گارہی تھی۔ بھگوان کے آگے دوزانوبیٹھ کر کسی نے آرتی گائی۔
’’جے شری کرشن ہرے، پربھوجے شری کرشن ہرے
بھگتن کے دکھ سارے پل میں دورکرے
جے سری کرشن ہرے پربھوجے شری کرشن ہرے۔۔۔‘‘
اورپھراس نے پوری طاقت سے شنکھ بجادیا۔ شنکھ کی آواز سن کر باجے والوں نے بھی باجے کی آوازیں تیز کردیں ۔ ان آوازوں کی کوکھ سے ایک بہت بھیانک آواز اسوقت اٹھی جب مسجد کی طرف سے آئے اینٹ کے ایک بڑے ٹکڑے نے کرشن بھگوان کے ماتھے پر خون کی لکیر کھینچ دی۔ بھگوان کے ماتھے سے جب خون کی بوند گری توآرتی کے تھال میں جلتا دیا بجھ گیا۔ اینٹ کرشن بھگوان کے ماری گئی تھی، چوٹ حمید کے لگی تھی اورآرتی کادِیا بجھ گیاتھا موہنے کنہیا کے خون کی بوند سے ۔۔۔ چاروںسمت بے ہنگم شوربرپاہوا۔ چیخ پکار توڑ پھوڑ اور جذبات سے بھری آوازوں نے مسلمانوں کے دروازوں کوگھیرلیا۔ مسجد کے دروازے پر بھی لوگ جمع ہونے لگے ۔ پنڈت برج کشور بھیڑ کو چیرتے ہوئے دروازے تک پہنچے تو دیکھا ایک نوجوان مسجد کے دروازے کو کلہاڑی سے گودے چلاجارہا ہے۔ پنڈت جی نے اس کے ہاتھ سے کلہاڑی چھین لی پھر ایک سمت سے ’’نعرہ تکبیر اللہ اکبر‘‘ کی آوازیں آئیں ۔پنڈت جی دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے تودیکھا کہ سیٹھ ڈونگر مل اوررامانند لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
’’بھیایہ کیا؟ یہ کیابھیا ۔ہم سب ۔۔۔ہم سب بھائی ہیں۔ اسی دھرتی پر پیداہوئے ہیں اوراسی ۔۔۔‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔’’ہاں اوراسی دھرتی پرمریںگے بھی۔‘‘ اوراسی وقت سیٹھ ڈونگر مل اوررامانندی ہلاک کردیے گئے۔ دونوں کے قتل کے بعد شور اورتیز ہوگیاتوپنڈت جی کلہاڑی پھینک کر بنداخاں کے دروازے کی طرف بھاگے ،جہاں سے ’’جے بجرنگ بلی‘‘ کا نعرہ بلند ہواتھا۔ وہ جب وہاں پہنچے تودروازہ شعلے اگل رہا تھا اور اندرعورتوں اور بچوں کی آوازیںبلک رہی تھیں۔۔۔
پنڈت جی نے دیکھا کہ ہرشخص کی آنکھوں میں خوف اورحیرت کے سائے لرز رہے ہیں ۔ہرشخص کے چہرے پرایک سوالیہ نشان تھا۔’’یہ کیسے ہوگیا؟ ایسانہیں ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘مگرپھربھی سب کچھ ہورہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سب کچھ ہورہاتھا۔ آخرکیسے؟ وہ کون سی طاقت ہے جونظرنہ آتے ہوئے بھی سب کچھ ۔۔۔اوراسی وقت پنڈت جی نے دیکھا کہ کچھ لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔آسمان جوسب کے سروں پرتھا ،اس آسمان پرعجب طرح کارنگ چھاگیاتھا۔ یہ رنگ سرخ بھی اور زرد بھی۔ جس مقام پر دونوں رنگ مل رہے تھے وہاں ایک گہری لکیر دکھائی دیتی تھی۔ دھیان سے دیکھنے پرمحسوس ہوتا کہ لکیر کے آس پاس باطن میں سیاہی چھپائے سفید سائے ابھررہے ہیں اورپوری فضا پرخوف وہراس طاری ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے قصبے کے آسمان پرسفید سائے کبھی سرخ اورزردرنگ بکھیرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے تھے مگرآج۔۔۔مگرآج ان سایوں کودیکھ کر کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بڑے بڑے گُرز لیے ہماری مدد کوتیار ہیں تو کچھ ان کے ہاتھوں میں ننگی شمشیریں دیکھ کر اپنے اندربے پناہ قوت محسوس کررہے تھے کہ اچانک یہ سائے آسمان سے اتر کر بھیڑ میں شامل ہوگئے۔ پنڈت برج کشور کی نظر ڈولے پرپڑی تووہ لرزگئے اوربے تحاشا ڈولے کی طرف بھاگنے لگے ۔ پنڈت جی نے دیکھا کہ ایک شخص نے ڈولے پررکھا پھرسا اٹھالیا ہے اورکرشن بھگوان اس کے آگے ہاتھ جوڑے ڈرے سہمے کھڑے ہیں۔ تیز دھاروالا یہ پھر سا ہرسال ڈولے پر رکھا جاتا ہے اورگشت پورا ہونے پرکرشن بھگوان اسی پھرسے سے کنس کاودھ کرتے ہیں۔
پنڈت برج کشور کے منہ سے کانپتی ہوئی آواز نکلی ۔’’یہ کیا ۔۔۔یہ توکرشن بھگوان ہیں ۔۔۔کنہیا ۔۔۔ہمرے کنہیا ۔۔۔‘‘ ہرپرساد جس نے ابھی ابھی آرتی گائی تھی، بھرّائی ہوئی آواز میں مسمسا اٹھا۔ ’’ناہیں ۔۔۔یہ حمید ہے فقیر محمدکالڑکا ۔‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں ۔۔۔’’ہاں یہ حمید ہے ،ایک مسلمان کالڑکا ۔ہمارے کرشن بھگوان کااپمان کیا ہے انھوںنے ۔ڈولے پر اینٹ پھینکی ۔۔۔ بھگوان کے ماتھے سے خون بہا۔ اوراب دروازے بند کرکے گھروں میں چھپ گئے ہیں۔‘‘ ڈولے پر کھڑاشخص پھرسا ہوا میں اٹھا تے ہوئے دہاڑا ۔۔۔’’ہم اس کابدلہ لیں گے ۔ہم آج اسے ۔۔۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ پنڈت برج کشور چیخے اوراس کے ہاتھ سے پھرسا چھیننے کی کوشش کرنے لگے ۔مگراس شخص نے پنڈت جی کوزور سے دھکا دے کر ڈولے سے نیچے ڈھکیل دیااورپھرحمید کے سرپر پھرسے کاایک بھرپوروارکردیا۔
مکٹ، کاچھنی اوربیجنتی مال پہنے کرشن بھگوان ڈولے سے نیچے لڑھک پڑے اوردھرتی پرخون کی ایک لکیر بہت دور تک کھینچتی چلی گئی ۔۔۔کچھ لوگ لکیر کے اِدھر تھے اور کچھ اُدھر ۔دونوں طرف شور تھا ۔یہ کہنا مشکل تھا کہ لکیر کے ادھر زیادہ شور ہے یا اُدھر ۔۔۔!!


آدھی سیڑھیاں


سعیدہ بیگم اپنے کمرے سے نکل کر دہرے دالان سے ہوتے ہوئے احمد کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’اٹھ گئے بیٹے؟‘‘
’’جی امی جان۔۔۔‘‘
احمدآنکھیں ملتا ہوابسترسے اترکر کھڑاہوگیا۔
’’آفتابے میں گرم پانی رکھ دیا ہے ،جائو منہ دھولو۔‘‘
احمدنے منہ دھولیا توسعیدہ بیگم ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں آگئیں۔
’’اب شادی میں صرف ایک مہینہ باقی ہے اورتم نے روپیوں کاابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا۔ مہمانوں کودعوت نامے بھی پہنچنے ہیں۔ ایک مہینہ پہلے سے تومہمان داری جڑنا ہی چاہیے۔‘‘
احمدروغنی روٹی کانوالہ چباتے ہوئے بولا۔
’’امی جان، اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب کسی کے پاس اتناوقت کہا ں ہے جو مہینوں پہلے سے شرکت کرے۔ جنہیں بلانا ہوگا ہفتہ بھر پہلے دعوت نامے بھیج دیں گے۔ خاص خاص رشتے داروں کو توبلانا ہی ہے۔ بھیڑ جمع کرنے سے کیافائدہ۔‘‘
سعیدہ بیگم نے دیکھا کہ رکابی میں خاگینہ اسی طرح رکھا ہوا ہے اور وہ روکھے لقمے نگل رہا ہے۔
’’ٹھیک ہے بیٹے جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
احمدنے ناشتے کے بعد سلفچی میںہاتھ دھوئے اور صدردروازے سے نکلتا ہوا لالادیوی سرن کی بیٹھک کی جانب مڑگیا۔ لالا چبوترے پرہی دھوپ میں پلنگ ڈالے بیٹھے تھے۔
’’آئواحمدمیاں۔۔۔کیسے تکلیف کی؟‘‘
احمدچارپائی کے برابر رکھے مونڈھے پربیٹھ گیا۔
’’بہت دنوں سے آپ کے درشن نہیں ہوئے تھے۔ پڑھائی لکھائی کے چکرمیں علی گڑھ سے آناہی نہیں ہوتا۔ سوچا اب آیا ہوں توآپ سے مل آئوں اورپھر نیوتا جودینا تھا۔‘‘
’’کاہے کانیوتا احمدمیاں۔۔۔‘‘
لالاجی کاہاتھ پیٹ پر رینگنے لگا۔
’’وہ بات یہ ہے کہ میں ۔۔۔میرامطلب ہے امی جان نے رشتہ پکاکردیا ہے ۔ایک مہینے بعد کی تاریخ طے ہوگئی ہے۔‘‘
’’مگررشتہ تومیاں اپنے سامنے ہی پکا کرگئے تھے ۔روشن نگروالے میاں کی بیٹی کے ساتھ۔‘‘
’’وہ بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘
احمدسے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
’’اچھا تووہاں سے رشتہ ٹوٹ گیا ۔۔۔‘‘
لالادیوی سرن نے ٹوٹنے پر اس طرح زوردیا جیسے یہ توٹوٹنا ہی تھا۔
’’ویسے اب کہاں ہوا ہے رشتہ؟‘‘
احمدکا جی چاہا کہ کوئی جواب نہ دے مگراس نے الفاظ ڈھکیلے ۔
’’علی گڑھ میں ہی ایک لڑکی ہے۔‘‘
’’تمہارے سنگ پڑھتی ہوگی۔‘‘
’’جی۔‘‘
مجرم کی طرح احمد نے گردن جھکالی
’’احمدمیاں جب سے تم علی گڑھ گئے ہو ،تمہارابستی سے کوئی ناتاہی نہیں رہا۔ کتنی پڑھائی اور ہے؟‘‘
’’بس ریسرچ۔۔۔ یعنی کچھ لکھنا ہے بس ایک کتاب۔‘‘
’’وہ توٹھیک ہے مگریہاں ۔۔۔تم نے کھیتی باڑی بھی نوکروں کے اوپر چھوڑ رکھی ہے اوراب توشادی بھی علی گڑھ میں ہی۔۔۔‘‘
وہ سرنیچا کیے خاموش بیٹھا تھا ۔
’’بیاہ کی تیاری توسب ہے نا؟‘‘
’’ہاں تیاری توہورہی ہے۔‘‘
احمدنے آہستہ سے کہا۔ لالادیوی سرن نے گھاگ نظروںسے اسے دیکھااورسب کچھ سمجھ گئے ۔
اچھا تم کل صبح نوبجے آجانا۔‘‘
صبح اٹھ کر جب وہ ڈیوڑھی کے صدردروازے سے باہرنکلا تو دیکھا کہ دوبچے دھوپ میں کنچے کھیل رہے ہیں۔ احمد اونچے چبوترے پر کھڑا چھوٹی چھوٹی کانچ کی ان گولیوں کو دیکھتا رہا جنہیں بچے انگلیوں سے اِدھر اُدھر لڑھکارہے تھے ۔ ہری گولیوں والا بچہ جیت رہا تھا۔ بچے نے جب سے ہری گولیاں نکال کر اطمینان سے زمین پر پھیلادیں اورجیتی ہوئی لال گولیوں کو چاک کی جیب میں رکھ لیا۔احمدنے سامنے دیکھا ،دورتالاب کے اس پار اس کے اپنے ہرے ہرے کھیت لہلہارہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اورجب کھولیں تومحسوس ہوا کہ صدیاں بیت گئی ہیں۔ اب بازی پلٹ گئی تھی۔ زمین پربکھری ہری گولیاں غائب تھیں اور لال گولیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ سورج کی کرنیں زمین پراترآئی تھیں اورکانچ کی لال گولیوں پر اس طرح پڑ رہی تھیں کہ اس کے کھیت اب سرخ نظرآرہے تھے۔ احمد نے گھڑی دیکھی ،نوبجنے ہی والے تھے ۔ وہ لالا دیوی سرن کی گدی پر پہنچادیکھا کہ لالا اپنالال بہی کھاتا لیے کچھ لوگوں کے بیچ بیٹھے حساب کتاب میں مشغول ہیں۔
’’آداب عرض لالاجی۔۔۔‘‘
’’آداب عرض احمدمیاں۔ کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’جی ۔۔۔؟‘‘
احمدبوکھلاگیا۔
’’ارے ہاں۔۔۔آئو آئو بیٹھو۔ اچھا کندن لال جی کل آنا کام ہوجائے گا اور بھیانند ناتم بھی اپنے گائوں جائو فکرمت کر اور تم یہ لو۔۔۔‘‘
سب لوگ لالاجی کونمستے کرتے ہوئے بیٹھک سے اٹھ کر چلے گئے اور جوبیٹھے رہ گئے وہ جیسے آدمی نہ ہوں سامان کی گٹھریاں رکھی ہوں ۔۔۔لالادیوی سرن نے احمدکی طرف کھسکتے ہوئے آہستہ سے پوچھا
’’تمھیں روپیوں کی ضرورت ہے نا؟‘‘
وہ خاموش بیٹھا رہا ۔دراصل لالادیوی سرن کاسوال ہی احمدکاجواب تھا۔
’’دیکھو کنورصاحب، سرکارنے کچھ ایسے قانون بنادیے ہیںکہ بغیر کوئی چیز رکھے بیان پر روپیہ دیتے ڈرلگتا ہے ۔ اب توبیاج کاکام ختم ہوتا ہی لگے ہے۔پیٹ پالنے کے لیے کچھ نہ کچھ توکرنا ہی پڑے گا۔ سوچ رہا ہوں بھینسیں پال کر دودھ کاکام شروع کردوں۔‘‘
لالادیوی سرن بولتے رہے۔
’’شادی کے بعد ماتاجی کوتواپنے ساتھ ہی لے جائو گے، ڈیوڑھی خالی ہوجائے گی، زنان خانہ توٹوٹ ہی گیا ہے بس ڈیوڑھی کاحصہ بچا ہے، اگراسے بیچ دو تو میں اس میں بھینسیں پالنے کابندوبست کرلوں۔ میرابھی کام نکل جائے گا اور تمہاری شادی بھی ۔۔۔‘‘
احمدکی آنکھیں پھیل گئیں۔ کچھ حیرت سے ،کچھ قصداً تاکہ آنسوخشک ہوجائیں اورٹپکنے نہ پائیں ۔ رنگ برنگے دائرے بننے مٹنے لگے اورنظروں میں بچپن کی دھندلی تصویریں ابھرآئیں۔
’اباحضور دالان میں بیٹھے فرشی حقہ پی رہے ہیں۔ دھوئیں میں شامل خمیرے کی فضا معطر ہے۔ وہ امی جان کے ہاتھ کی کڑھی سچے گوٹے کی کناری والی گول ریشمی ٹوپی پہنے آنگن میں کھیل رہا ہے۔ دھوپ میں جہازی پلنگوں پرابا حضور کی اچکنیں ،گرم شیروانیاں اورامی جان کے کمخواب اور پوتھ کے غرارے پھیلے ہوئے ہیں۔ اسے پشمینے کی شالوں اورکشمیری نمدوں میں بسی کافور کی مہک بہت اچھی لگتی ہے۔ وہ اباحضور کی آنکھ بچاکر کپڑوں سے کھیلنا شروع کردیتا ہے ۔ریاضو گود میں اٹھانے کی کوشش کرتاہے تو وہ بری طرح مچلنے لگتا ہے۔ پائیں باغ میں رحیما بیلے اورہارسنگار کے پھول چن رہا ہے۔ امی جان ہاتھ میں آب پاش لیے شہتوت کے پیڑ میں پانی لگارہی ہیں۔ یہ پیڑ دادا جان نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔ اس کے شہتوت بہت میٹھے ہیں۔ جب بھی اتر تے ہیں تو امی جان غفورخاں کے ہاتھ روشن نگرضرور بھیجتی ہیں۔‘
’’کیاسو رہے ہو احمدمیاں؟‘‘
لالادیوی سرن نے اسے چونکادیا۔
’’لالاجی ،میں ڈیوڑھی تونہیں بیچ سکتا۔‘‘
احمدنے دوٹوک جواب دیا اورسوچنے لگا کہ ایک توپہلے ہی بہت کچھ بک چکا ہے ۔ڈیوڑھی کے علاوہ بمبے کے سہارے والی اسّی پچاسی بیگھے زمین ہی توبچی ہے ۔ اگرڈیوڑھی بھی بک گئی توبستی میں جوکچھ عزت ہے وہ بھی خاک میں مل جائے گی۔ پھر لالاسے مخاطب ہوکر بولا۔
’’آپ اگرسود پرروپیہ نہیں دے سکتے تو دس پانچ بیگھے زمین خرید لیجیے۔
’’نہیں احمد۔۔۔ ‘‘
میاں شاید دل میں کہاہومگرزبان سے صرف احمدہی نکلا اوراحمد کے بعد تھوڑا وقفہ دیا پھربولے ۔
’’میرے پرکھوں نے بھی کھیتی نہیں کی۔ میں زمین کاکیاکروں گااوروہ بھی صرف دس پانچ بیگھے۔ اب اتنی سی زمین کے لیے نوکررکھوں ،جوارا بنائوں اورپھربیل باندھنے کوایک گھیر۔۔۔ایک دوبیگھے زمین تو اسی میںگھر جائے گی، پھربچی ہی کتنی۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر دونوں خاموش رہے پھرلالادیوی سرن کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
’’ہاں اگرسوڈیڑھ سو بیگھے زمین ہو تو اس میں کچھ روپیہ لگایا بھی جائے۔ مجھے زمین کا بیوپار تو کرنا نہیں ہے کہ تم سے اونے پونے داموں میں خرید کرکسی اور کوبیچ دوں۔‘‘
’’لالاجی امی جان نے آپ ہی کے بھروسے تاریخ طے کی تھی ۔۔۔‘‘
’’توپھر ساری زمین بیچ دو۔ میں خرید لوںگا۔ تمہیں کون سی کھیتی باڑی کرنی ہے ۔ پڑھ لکھ کر تونوکری ہی کروگے۔‘‘
لالادیوی سرن احمدکاچہر ہ پڑھنے لگے۔ پھرخاموش بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھا اورالماری سے پوتھی نکال کرپٹ اس طرح بند کیے جیسے احمد کوباہر نکال کردروازہ بند کرلیا ہو۔ احمدنے محسوس کیا کہ وہ سامان کی گٹھری بن گیا ہے ۔
اس نے پہلوبدلا تولالا نے اس پراچٹتی سی نظرڈالی اوربولے۔
’’یاپھر کسی کسان سے بات کرلو۔ کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا۔
احمدکہاں گھر گھر جاکر زمین بیچنے کی بات کرتا گھومتا۔ اس نے دوچار لوگوں سے بات کی بھی مگران کے لیے اتنی جلدی روپیوں کاانتظام کرنا مشکل تھا۔ جن کے پاس روپیے تھے وہ اس کی ضرورت کافائدہ اٹھاکرکوڑیوں کے دام خریدنا چاہتے تھے۔ شادی کے دن قریب آتے جارہے تھے اورابھی تک پاندان کی چھالیوں بھرکاانتظام بھی نہ ہوپایاتھا۔ بدنامی کے خوف سے تاریخ بھی نہیں بڑھائی جاسکتی تھی۔
مغرب کی اذان ہوئے کافی دیرہوگئی تھی ۔بمبے والے کھیت اندھیرے میں ڈوب گئے تھے ،مگروہ ڈیوڑھی کی بالائی منزل پرکھڑا اپنے کھیتوں کو گھورے جارہا تھا۔ زینے سے اتر کر جب اس نے سعیدہ بیگم کے کمرے میں جھانکا تو وہ دعاکے بعد جانماز لپیٹ رہی تھیں۔ جب وہ پلنگ پرتسبیح لے کر بیٹھیں تو احمد بھی کمرے میں داخل ہوگیا۔ سعیدہ بیگم نے بیٹھنے کااشارہ کیا اور وہ پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گیا ۔
’’وہ ایسا ہے امی جان ۔۔۔‘‘
’’کیا ہے بیٹے؟‘‘
’’کچھ نہیں ،آج سردی بہت ہے۔‘‘
’’کیا بتّوکی اماں نے تمہارے پلنگ کے نیچے بھوبھل کاکونڈانہیں رکھا؟‘‘
انھوںنے کچھ اس انداز سے باہر جھانکا جیسے بتّو کی اماں کوپکارنے والی ہوں۔
’’بھوبھل تورکھ دی ہے مگرسوچاکچھ دیرآپ کے پاس ہی بیٹھ لوں۔‘‘
’’ہاں بیٹے۔۔۔تمہارا یہاں دل بھی تونہیں لگتا ہوگا۔ بچپن میں ہی توشہر چلے گئے تھے۔ کبھی ایک دوروز کے لیے آتے ہو، دل لگے بھی کیسے۔‘‘
’’نہیں امی جان یہ بات نہیں ہے، دراصل آپ سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘
’’ہاں کہو۔۔۔‘‘
سعیدہ بیگم نے تسبیح تکیے کے نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
’’بات توکوئی خاص نہیں ہے ۔بس یوں ہی اپنے فیوچر۔۔۔میرامطلب ہے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پڑھائی سال ڈیڑھ سال میں ختم ہوجائے گی ۔ آج کل نوکریاں توملتی نہیں ہیں اورپڑھائی لکھائی کے بعد یہاں آکر کھیتی باڑی کرنا۔۔۔ کھیتی باڑی بھی کوئی کیاکرے ،حکومت نے سیلنگ کاایسا چکر چلایا ہے کہ پتانہیں یہ زمین بھی رہے یانہیں۔ میں نے سوچا ہے ۔۔۔‘‘
احمدکہتے کہتے رک گیا۔
’’کیاسوچا ہے ؟‘‘
سعیدہ بیگم نے پوچھا ۔
ہمیں اب کھیتی کے بھروسے نہیں رہنا چاہیے۔ آمدنی کاکوئی اورذریعہ۔۔۔‘‘
’’بات توٹھیک ہے، مگراورکیا ہوسکتا ہے؟‘‘
سعیدہ بیگم غورسے سننے کے لیے تھوڑا آگے کھسک آئیں۔
’’آج کل شہروں میں مکانوں کے کرائے بہت ہیں، اگرکچھ مکان بنوادیے جائیں توماہانہ آمدنی خاصی ہوجائے گی۔ اور پھررہنے کوبھی ایک مکان ہوجائے گا، کرائے کے مکان میں تو۔۔۔آپ کابھی یہاں اکیلے دل گھبراتا ہوگا، وہیں ساتھ رہیں گے۔ آپ کادل بھی لگارہے گا۔‘‘
احمدایک لمحے کے لیے خاموش ہواتوسعیدہ بیگم نے چھت کی طرف دیکھا۔ ایک جنگلی کبوتر شہتیر کے کنڈے میں جھول رہا تھا۔ معلوم نہیں کیاہوا کہ اپنے پرپھُلانے لگااورپھرکنڈے کے دائرے سے نکل کر پرپھڑپھڑاتا ہوادیوار سے جاٹکرایا۔ نیچے فرش پر گرنے ہی والاتھا کہ سنبھلا اورروشن دان کی طرف اڑا۔ روشن دان کاشیشہ ٹوٹ چکا تھا ،کبوترتیزی سے نکلا اورباہر تاریکی میں گم ہوگیا۔ سعیدہ بیگم نے احمد کے چہرے کوغورسے دیکھا۔
’’لیکن بیٹے، اس کے لیے پیسا بھی توچاہیے۔‘‘
’’امی جان نوکروں کی کھیتی میں بچتا ہی کیا ہے اوراس وقت لالادیوی سرن ہماری زمین کے دام بھی اچھے لگا رہے ہیں۔ آئندہ معلوم نہیں کیساموقع ہو، اگر آپ کی اجازت ہو۔۔۔‘‘
سعیدہ بیگم کی آنکھ سے آنسوگرا اورلحاف کی روئی میں جذب ہوگیا۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولیں۔
’’اس بچی کھُچی زمین کو کیوں بیچتے ہو ۔تمہارایہاں سے بالکل اکھڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے کبھی کبھار آبھی جاتے ہو ۔ پڑی رہنے دواسے اپنے اباحضور کی نشانی سمجھ کر۔ ‘‘
’’لیکن امی جان ،شادی کے لیے روپیوں کاانتظام بھی تونہیں ہوپایا ہے۔ لالانے سود پر دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔ میں نے چاہادس پانچ بیگھے زمین بیچ دوں مگرکوئی گاہک نہیں ملا۔ لالاتیار ہیں مگرکہتے ہیں ،ساری زمین بیچوتوخریدبھی لوں۔۔۔‘‘
’’کوئی اورصورت نکل سکتی ہوتواچھا ہے بیٹے۔‘‘
’’بس ایک ہی طریقہ ہے کہ چارپانچ معمولی سے جوڑے ہوجائیں اوراباحضور کے جوبٹن ہیں۔۔۔‘‘
سعیدہ بیگم نے جلدی سے احمدکی بات کاٹ دی۔
’’نہیں احمد ،ہمیںبرات لے کردوسرے کی دہلیز پر جانا ہے ۔اپنی نہیں تواپنے ابا حضور کی عزت کا توخیال کرو، اگر شادی دھوم دھام سے نہیں ہوئی تو بستی والے کیاکہیں گے۔‘‘
’’مگراب روپیوں کاتوکہیں سے انتظام نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’کچھ بھی ہوبیٹے ،زمین بیچنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
سعیدہ بیگم نے لیٹتے ہوئے کہا۔
احمداپنے کمرے میں جلتی ہوئی لالٹین کی لَو کبھی تیز کرتاتوکبھی کم۔ جب لو اتنی کم ہوجاتی کہ لالٹین کے بجھ جانے کاگمان ہونے لگتا تووہ ہڑبڑاکر اس کی لوتیز کردیتا کہ چمنی چٹخ جانے کاخوف اس کے جسم میں تیرجاتا۔ چمنی اتنی سیاہ ہوچکی تھی کہ شیشے کی قید سے باہر نکلنا اب روشنی کے بس میں نہیں تھا۔
’’آنکھیں بند کرلینا اورسوجا نا ہی بہتر ہے۔‘‘اس نے سوچا۔
وہ بستر پر لیٹ تو گیا مگر نیند لالادیوی سرن کی چوکھٹ پر کھڑی رہی اوراس کی آنکھیں رات بھر چھت کی کڑیاں گنتی رہیں۔
سعیدہ بیگم کوکچھ بتائے بغیر سب طے ہوگیا۔ لالادیوی سرن نے آدھی رقم دے کرکاغذکرالیا اورباقی روپیے بیع نامے کے وقت دینے کاوعدہ کرلیا۔ احمد نے جب سعیدہ بیگم کے ہاتھ میں روپیے لاکر دیے توان کے ہاتھ کانپ گئے ۔احمد کے چہرے کاجائزہ لیا، پھربولیں۔
’’کیاتم نے زمین بیچ دی ۔۔۔؟‘‘
’’اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘
’’توکیا یہ ڈیوڑھی بھی بیچ دو گے؟‘‘
سعیدہ بیگم کی بوڑھی نظریں ڈیوڑھی کی دیواروں پررینگنے لگیں۔
’’نہیں امی جان ،عید بقرعید توہم یہیںکریںگے۔‘‘
احمد نے اپنی دانست میں سعیدہ بیگم کو مطمئن کردیا۔
شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ہار، بندے ،بالیاں ،جھمکے ،بازو بند ،نتھ ،جھومر، چوڑی اورکنگن ،سبھی زیورات خریدے گئے ۔ریشم کے کسی کپڑے پرزری توکسی پر زردوزی کاکام شروع ہوگیا۔ سینے پرونے میں ماہر محلے بھر کی لڑکیاں اپنی انگلیوں کے کرتب دکھانے لگیں۔ تلے دانیاں نکل آئیں ، دالان میں کہیں سلمے تو کہیں ستارے اورکہیں کلابتوبکھرے نظرآنے لگے۔ مسالوں کی کُٹائی کے لیے ہاون دستے نکل آئے۔ تانبے کے نقشیں خاص دان، گلاب پاش، پاندان ، حسن دان، بادیے اورطبق قلعی گرکی دکان پر پہنچ گئے اورتاکید کردی گئی کہ قلعی کاسب سے قیمتی کشتہ استعمال کیاجائے۔ دیواروں، دروں، طاقوں اور محرابوں کی مرمت ہوئی اورپوری ڈیوڑھی کی پُتائی کے بعد شامیانے اورقناتیں لگاکر چھت میںقندیلیں لٹکادی گئیں اورمہمانوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ جگہ تخت بچھادیے گئے۔ سعیدہ بیگم کی خواہش کے مطابق احمدمیاں کی برات میں بستی کے ہندومسلمان سبھی نے شرکت کی۔ صبا دلہن بن کرآئی توخوشی میں رات بھرآتش بازی چھوٹتی رہی۔ ولیمے کی دعوت میں قرب وجوار کے گائوں والوں کوبھی بلایاگیا۔ اورپھرڈیوڑھی شہر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں منتقل ہوگئی۔ بڑاساغسل خانہ سمٹ کر باتھ روم بن گیا۔ قدمچوں کارنگ سفید پڑگیا۔ چولھے سے گیس نکلنے لگی اورکمروں کی چھتیں اتنی نیچی کھسک آئیں کہ سعیدہ بیگم کا دم گھٹنے لگا۔ اس دن سعیدہ بیگم کو سخت کوفت ہوئی جب ان کاپیتل کاکٹورا انگریزی نسل کے پالتوکتے نے چاٹ لیا اورمانجنے کے لیے ان کے گھر میں توکیاپڑوس میں بھی راکھ نہ مل پائی۔ سردیاں گزرگئیں۔ نہ سقاوہ ،نہ تتیڑا، نہ آتش دان ،نہ انگیٹھی ،سعیدہ بیگم کے ہاتھ کوئلے کی آنچ کو ترستے ہی رہے۔ ہاں دن میں کئی کئی بارچائے پینے کوملتی رہی۔
’’تم لوگ کتنی چائے پیتے ہو؟ چائے پیتے میری توزبان موٹی ہوگئی ہے۔‘‘
آخرایک دن سعیدہ بیگم نے ٹوک ہی دیا۔
’’اوریہ جوتم نے نوکررکھا ہے بلاکاسُست ، دوپہر کاکھانا شام ہونے کوآتی ہے تب جاکے پکاپاتا ہے۔ کچھ کہو تو بڑبڑانا شروع ۔ کیایہاں نوکر کم ملتے ہیں؟
’’یہی بہت مشکل سے ملا ہے۔‘‘
احمد نے کہااورسعیدہ بیگم کی نظروں میں ریاضو، رحیما اورغفورخاں کے سعادت مند چہرے گھومنے لگے۔
’’مجھ سے تمہارا یہ چولھاجلانانہیں آتاورنہ میں ہی پکادیاکرتی۔ اوریہ جوسیٹی والا دیگچہ ہے ،اس میں کھانا بھلے ہی جلدی پکتا ہو مگر ہوتابالکل بے مزہ ہے۔ میں نے توایک وقت بھی پیٹ بھرنہیں کھایا۔‘‘
احمدمسکرانے لگا ،سنبھل کر بیٹھا اور سمجھانے کے انداز میں بولا۔
’’امی جان اس میں پکاہوا کھانا بہت مفید ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی بھاپ نکلنے نہیں پاتی، اس لیے سارے وٹامن ،مطلب ساری طاقت اندر رہتی ہے۔‘‘
’’توبیٹے تمہارے خیال میں کھوئے میں توبالکل طاقت نہیں ہوتی ہوگی۔‘‘
الغرض احمدکاکوئی جواب سعیدہ بیگم کو مطمئن نہ کرسکا۔ سرہانے رکھی پان کی پٹاری اٹھائی، پان لگایا، منہ میں رکھا، تھوڑی دیر چبایا اورپھرپلنگ کے نیچے جھانک کردیکھا ،وہاں پیکدان نہیں تھا۔ وہ اٹھیں اوربرآمدے میں لگے واش بیسن کی طرف چل دیں۔
دونوں وقت مل رہے ہیں ۔روشنی پوری طرح ختم نہیں ہوئی اوراندھیرا پائوں پسارنے لگا۔ سعیدہ بیگم چھوٹے سے لان کے ایک کونے میں بید کے اسٹول پر تنہا بیٹھی گھنٹوں سے گزرے زمانے کی مالا گوندھ رہی ہیں۔ کیاری میں منی پلانٹ کی بیل بائونڈری کے سہارے اوپر چڑھ رہی ہے۔ کیاری سوکھ چکی ہے۔ احمداورصبا کوفرصت ہی کہاں ہے ،اورسعیدہ بیگم پانی لگائیں توکس پودے میں ؟مولسری ہے ، نہ چنبیلی اورنہ شہتوت ۔ کچھ کانٹے دار پودے ہیں تو کچھ کوگملے میں قید کرکے بونابنادیاگیا ہے۔ کسی میں پانی زیادہ لگتا ہے ،کسی میں کم اورکسی میں بالکل نہیں۔ اب اس عمرمیں اجنبی پودوں سے کہاں تک مانوس ہواجائے۔ سعیدہ بیگم نے ایک نگاہ چھوٹے سے فلیٹ کی دیواروں پرڈالی۔ نگاہوں میں ڈیوڑھی کاصدردروازہ گھوم گیا۔ ان کی پالکی اندرداخل ہورہی ہے۔ انھوںنے سچے کام کے بھاری دوپٹے کے گھونگھٹ سے جھانکا۔ محلے بھر کی کنواری لڑکیوں نے چاروں طرف سے گھیررکھا ہے۔ وہ اسی طرح مہینوں تک دلہن بنی بیٹھی رہی تھیں۔ اماں بیگم نے سال بھرتک کسی کام سے ہاتھ نہیں لگانے دیاتھا۔ جب انھوںنے پہلی بارکھیر کی ہنڈیا میں ڈوئی چلائی تو اس پرنیازدے کر اماں بیگم نے اُسے پورے محلے میں تقسیم کیاتھا ۔ پریشر کوکر کی سیٹی نے انھیں چونکا دیا۔ احمدااورصبا کی شادی کوکچھ ہی ہفتے گزرے تھے اورصباکچن میں کھاناپکارہی تھی۔ وہ روزانہ سبزی گوشت پھل سبھی کچھ خود ہی خرید کرلاتی ہے۔ انھیں محسوس ہواکہ صبا کاوجود ان کے چاروں طرف ہیولے کی شکل میں گرد ش کررہا ہے اوران کااپنا وجود مٹتاجارہا ہے۔ صبا کہاں جارہی ہے؟کون آرہا ہے؟ کیوں آرہا ہے؟ کس کے لیے چائے بن رہی ہے؟ کمرے میں احمد کے دوستوں کے درمیان صبا کن باتوں پر قہقہہ لگارہی ہے؟ سعیدہ بیگم کوکسی بات کاعلم نہیں تھا۔ آخرکارایک دن انھوںنے احمدکوبلایااور سمجھانے لگیں۔
’’بیٹے یہ تمہیں کیاہوگیا ہے؟ ہمارے خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بہو بازار۔۔۔‘‘
اس پروہ ہنس دیا اورسعیدہ بیگم کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔وہ خود کوبہت چھوٹامحسوس کرنے لگیں۔ یہ گھر، یہ ماحول، اپنابیٹا اپنی بہو سب کچھ پرایا سالگنے لگااوروہ اپنے بیٹے بہو سے بہت دورہوتی چلی گئیں۔
ایک دن احمدنے صباسے پوچھا۔
’’تم سے کوئی بات ہوئی ہے امی جان کی؟ کچھ خاموش رہتی ہیں،بالکل گم سم سی۔‘‘
’’نہیں تو،مجھ سے توکوئی بات نہیں ہوئی۔ میں نے ایک دن پوچھا بھی تھا، پہلے چپ رہیں پھر کچھ اس طرح جواب دیا کہ اس کے بعد کوئی بات پوچھنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔‘‘
احمدسوچنے لگا۔
’’معلوم نہیں امی جان کوکیاہوگیا ہے۔بالکل غیروں کی طرح برتائو کرتی ہیں ۔لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی۔۔۔‘‘
وقت گزرتارہا۔ ریسرچ مکمل ہونے کے بعد اسے عارضی نوکری مل گئی۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو اس نے سوچا کہ بیع نامہ ان ہی چھٹیوں میں کردیاجائے تاکہ باقی روپیہ مل سکے۔ لہٰذا سب کاقصبے جانے کاپروگرام بن گیا۔ سعیدہ بیگم نے ڈیوڑھی میں پہنچ کر سب سے پہلے شہتوت کے پیڑمیں پانی لگایا ۔بتّوکی اماں کوخبرہوئی تو وہ آگئیں۔ پوری ڈیوڑھی دھول مٹی سے اٹی پڑی تھی۔
باغیچہ سوکھ کر بنجر ہوگیاتھا۔ دیواروں اورچھتوں پرمکڑی کے جالے لگے ہوئے تھے۔ بتّوکی اماں محلے کے دوچار بچوں کو بلالائیں۔ بدلو سقے کوخبرہوئی تومشک بھرکر لے آیا۔ کوڑاکرکٹ ایک طرف کرکے صحن میں چھڑکائو کردیاگیا۔ بتّوکی اماں سعیدہ بیگم کے کمرے کی صفائی میں جٹ پڑیں اورسعیدہ بیگم نے اپنی بہو کے کمرے کوجھاڑ پونچھ کرٹھیک کردیا۔ احمدبازار سے ضرورت بھر جنس لے آیا۔ سعیدہ بیگم نے پوری ڈیوڑھی کوسرپراٹھالیا۔
’’بتّوکی اماں جلدی سے چاول بین لو۔ بہو کے لیے مزعفر بنانا ہے۔‘‘
’’کیابیگم صاحبہ؟‘‘
’’ارے سب کچھ بھول گئیں۔ زردہ۔ اورکیا؟اوردیکھو کباب کاقیمہ اچھی طرح پیسنا۔ کمبخت ہریاابھی تک کھویا لے کرنہیں آیا۔ آج کل کے بچے اتنے کام چور ہیں کہ ذراسے کام میں جان نکلتی ہے اوریہ نتھن تو کسی دین کانہیں ہے ،میوے منگائے توسیلے ہوئے لے آیا۔ اب رحیما اورغفورخاں جیسے آدمی کہاں سے آئیں۔‘‘
پھرانھیں کچھ یادآیا اورچونک کر بولیں۔
’’ارے ہاں ،چائے کاپانی رکھنا تومیں بھول ہی گئی۔ بہوکوچائے پینے کی عادت ہے، بے چاری نے صبح سے نہیں پی۔‘‘
سعیدہ بیگم بہوکے کمرے میں گئیں تو وہاں صباکومحلے کی لڑکیاں گھیرے بیٹھی تھیں۔
’’یہ کیا۔۔۔اب تم گھر جائو ۔تھوڑی دیر توبہوکوآرام کرنے دو۔ کل آجانا۔ بہوکے ہاتھ سے کھیر پکے گی۔ سمجھیں۔۔۔‘‘
انھوںنے سب لڑکیوں کو رخصت کرکے بہو کو مسہری پرلٹایا اورکمرے کی دونوں کھڑکیاں کھول دیں۔
احمدنے لالا دیوی سرن کے نام بیع نامہ کرکے بقایا وصول کرلیا۔ دیوڑھی کی تجوری اپنے پرانے اندازمیں کھلنے اور بند ہونے لگی، شہتوت کے مرجھائے پتے سرسبز ہوگئے کہ اچانک سعیدہ بیگم کومعلوم ہوا،چھٹیاں گزرگئی ہیں۔ انھیں لگا کہ ابھی توایک لمحہ بھی نہیں گزرا اور۔۔۔
’’امی جان کل جانا ہے۔ آپ کی تیاری توسب ہے نا؟ صبح ذرا جلدی چل دیںگے۔۔۔‘‘
احمد یہ کہتا ہوا پنی مچھردانی میں جاکر سوگیا۔
رات آدھی سے زیادہ ہوچکی تھی ۔احمدنے کروٹ لی ۔ایک آہٹ سی ہوئی، آہٹ ڈیوڑھی کے دالان میں ہوئی تھی۔ آنکھیں کھولیں تودیکھا سعیدہ بیگم ہاتھ میں تسبیح لیے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی ہیں۔
’امی جان ابھی تک نہیں سوئیں۔۔۔؟‘‘
اس نے سوچا۔ اٹھنا چاہا مگراٹھانہیں، بس چپ چاپ لیٹاانھیں دیکھتا رہا۔ دالان کی محراب میں لالٹین لٹک رہی تھی جوہوا کے جھونکے سے ہلنے لگی تھی۔ سعیدہ بیگم کاسایہ کبھی طویل ہوکردبے پائوں ڈیوڑھی کی دیواروں پرچڑھنے لگتااورکبھی سمٹ کر ان کے قدموں میں دم توڑدیتا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صحن کوپارکرکے باغیچے میں لگے شہتوت کے قریب پہنچیں، پانی سے بھری بالٹی اٹھائی اورشہتوت کے پیڑ میں انڈیل دی۔وہاں سے لوٹ کر صدردروازے تک آئیں۔ نقش ونگاروالے برسوں پرانے موٹے کواڑ چھوئے ،پھردالان میں لٹکی لالٹین اتارکر زینے کی طرف مڑیں اورسیڑھیاں چڑھنے لگیں مگرآدھی سیڑھیوں تک ہی پہنچی ہوں گی کہ جانے کیاسوچ کرواپس اترآئیں۔۔۔۔۔۔!!


پورٹریٹ


’آج وہ اس پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پرجاکر تصویربنائے گا۔ وہ برسوںسے بھٹک رہاہے۔ کبھی نالندہ کے کھنڈروںمیں اورکبھی بودھوںکے پرانے مندرکے اردگرد۔ اس نے راجگیرکے برھما کنڈمیںاشنان کرتی دوشیزائوںکی تصویریںبنائی ہیں توکبھی کشمیرکی پہاڑیوںسے گرتے جھرنوںکی۔ اس کابرش اجنتا کی خوبصورت وادیوںسے بھی آشناہے اور وہ ایلوراکی پتھریلی زندگیوں میں بھی رنگ بھرچکاہے۔‘
اس نے تھیلے میں سامان رکھا، ڈرائنگ بورڈہاتھ میں لیااور گھرسے نکل کرپہاڑکی چوٹی کی طرف نظراٹھاکر دیکھنے لگا۔
’چوٹی پرجمی برف کودیکھنے بہت سے لوگ اوپرچڑھ رہے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ پکوڑوںکے خوانچے اورچائے کی دکانیں ہیں۔ اوپرایک چھوٹاسامیلالگتاہے، جہاں چیزیں بہت مہنگی ملتی ہیں لیکن لوگ سستی چیزیں زیادہ داموں میں خریدکرخوش ہوتے ہیں۔‘
اب وہ چوٹی پرپہنچ گیاتھا۔ اس نے دیکھاکہ جہاںلوگ اپنااپناقیمتی سامان بیچ رہے ہیںاس سے ذراپہلے ایک بوڑھا فقیر پرانااوورکوٹ پہنے ،جوجگہ جگہ سے پھٹ کرگدڑی کی شکل اختیارکرچکاہے ،ایک پیڑکے نیچے بیٹھا ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہاہے۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔‘‘
فقیرہرایک سے سوال کررہاہے مگرلوگ اس کودیکھے بغیرہی برابرسے گزرجاتے ہیں اور وہ ان کے چہروںکواس طرح تکتاہے ،جیسے کہناچاہتاہو۔
’’بابو۔اے بابوادھردیکھ تولے۔‘‘
اس نے اپنی جیب کوٹٹولا۔حالانکہ اسے یقین تھاکہ جیب خالی ہے۔ جیب خالی تھی۔ یہ اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن آج فقیر کوکچھ دینے کی خواہش دل میں رہ ر ہ کر اٹھ رہی تھی۔
لمبی داڑھی اورسفید گھنی بھنویں ۔لمبی لمبی انگلیاں اوران پرابھری نیلی نسیں۔ ’یہ کتنی آرٹسٹک لگ رہی ہیں۔ آرٹسٹک ! نہیں۔۔۔مجھے یہ نہیں سوچناچاہیے۔آخرکتنی مصیبتیں جھیلی ہوںگی اورکتنے فاقے کیے ہوںگے اس بوڑھے فقیرنے، تب اس کی یہ حالت یعنی آرٹسٹک حالت بنی ہوگی۔ کاش اسے کچھ دے سکتا۔ جن کی جیب میں بہت کچھ ہے وہی کون سادے رہے ہیں۔پھریہ دردمیرے ہی دل میں کیوں۔ میری جیب خالی ہے شایداس لیے۔‘
وہ بازارسے گزرتے ہوئے اکثرسوچتاکہ جب اس کی جیب میںپیسے ہوںگے تویہ ڈرائنگ بورڈخریدے گا۔ وہ برش، گھنے بالوںوالابرش بھی لے گا۔ اب اس کے سینڈل بھی پرانے ہوگئے ہیں اوریہ پینٹ کاکپڑا کتناخوبصورت ہے۔ لیکن جب کوئی پینٹنگ بکتی اورجیب بھری ہوتی تو پرانے ڈرائنگ بورڈ اورگھسے ہوئے برش سے ہی کام چل جاتا۔ ’سینڈل اوریہ پینٹ، سب تو ٹھیک ہے ابھی۔ ‘وہ دل میں کہتا اورسینہ چوڑاکیے دکانوں کی طرف بغیردیکھے ہی بازارسے گزرجاتا۔
’توکیا آج بوڑھے فقیرکوکچھ دینے کی خواہش بھی۔۔۔؟نہیں۔۔۔‘ اس کے دل میں چبھن سی ہوئی شایدکوئی وارہواتھا۔ اس کے قدم اچانک رُک گئے اوروہ بوڑھے فقیرکے سامنے سڑک کے اس پارایک بڑے پتھر پربیٹھ گیا۔
’یہ توکچھ اچھے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اس فقیر کوضروردیںگے۔‘
ان کے ساتھ ایک سولہ سترہ سال کی معصوم سی لڑکی بھی تھی۔
’کسی انگریزی اسکول کی اسٹوڈنٹ معلوم ہوتی ہے۔ کتنادردہے اس کی آنکھوں میں اورکتنے غورسے بوڑھے فقیرکو دیکھ رہی ہے۔ ہاںہاں دیکھو، وہ فقیر کے قریب سے گزرنا چاہتی ہے۔ ضرورکچھ دے گی۔‘لیکن جب وہ اس کے قریب سے گزری توناک پررومال رکھتے ہوئے کانوینٹیئن اندازمیں بولی۔
’’اُف ڈیڈی،انڈیاسے یہ بھک منگے کب ختم ہوںگے۔‘‘
ڈیڈی نے فقیرپرحقارت بھری نظرڈالی اورکہا۔’’چلوبیٹی یہ سب ڈھونگی ہوتے ہیں۔‘‘
فقیرکی داڑھی اورمونچھوںمیں چھپے ہونٹوں میں جنبش ہوئی ۔شایدبوڑھے نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔
اس نے بورڈپرڈرائنگ شیٹ لگائی اورایک کٹوری میںبوتل سے پانی نکال کر برش صاف کرنے لگا۔ پھراس نے پوری شیٹ کونیلارنگ دیا۔ ’میں نے شیٹ کو نیلاکیوں رنگا؟‘وہ سوچنے لگا۔
’کیااس لیے کہ نیلارنگ آسمان کی وسعت اورسمندرکی گہرائی کی علامت ہے؟نہیں۔۔۔۔۔۔توپھر؟زہر۔۔۔‘
اس نے نظریں اٹھاکرسامنے بیٹھے فقیرکی جانب دیکھاتولگاکہ بوڑھے کاچہرہ نیلاپڑچکاہے۔ شیٹ پرنیلارنگ کچھ خشک ہواتواس نے سب سے پہلے بوڑھے فقیر کے چہرے میں دھنسی آنکھیں بنائیں۔
’کتنی گہرائی ہے ان آنکھوںمیں۔‘
اس نے فقیر کی آنکھوں میں جھانک کردیکھا توکتنے ہی مفکر، فلسفی اوردانش ورنظر آئے جواس کی گہری آنکھوں کی تہ میں کچھ تلاش کررہے تھے۔
’آنکھوںسے سب کچھ کھرچاجاچکاہے اوراب وہ دھندلی ہوگئی ہیں۔‘
بوڑھی پیشانی پرابھری بے جان شکنیں کسی بلندی پر لے جانے والی سیڑھیاں معلوم ہورہی تھیں۔
’سینکڑوںآرٹسٹ ان سیڑھیوں پربیٹھے تصویریں بنارہے ہیں اورزمانہ ان کے فن پردادلٹارہاہے۔‘
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔‘‘فقیرنے جاتے ہوئے ایک شخص کی طرف دونوں ہاتھ بڑھائے ۔بڑھے ہوئے موٹے موٹے ناخنوں میں بھرامیل،سفیدرونگٹے،ابھری ہوئی نیلی نسیں اورچھپکلی کے پیٹ کی طرح ہتھیلی کی زردکھال ۔محسوس ہواکہ فقیر کے دونوں ہاتھ کسی خوبصورت سفیدشاہی عمارت کے نقش ونگار بنانے میں مصروف ہیں۔
’کتنی کاریگری ہے ان بوڑھے اورلاغرہاتھوںمیں۔‘
اسے لگاکہ بوڑھے فقیرکے دونوں ہاتھ کاٹ لیے جائیںگے۔
’نہیں۔۔۔‘
اوراس نے جلدی سے بوڑھے کے دونوں ہاتھوںکومٹیالے رنگ سے ڈرائنگ شیٹ پربنادیا۔
’چہرہ مکمل ہونے بھی نہ پایاکہ ہاتھ بنابیٹھا!‘
احساس ہواکہ وہ بوڑھے فقیرکی تصویر بڑی بے ترتیبی سے بنارہاہے۔ بوڑھے کی گردن میں اودے رنگ کے پتھروں کی مالاپڑی تھی۔ اس کابرش اودے رنگ میں سن چکاہے، مگراب پتھراپنارنگ بدل رہے تھے۔ اس نے غورسے دیکھا۔’پتھر پھول بنتے جارہے ہیں اورکوئی شخص پھولوںسے لدابوڑھے کے نزدیک کھڑاہے اوربارباربوڑھے کی طرف اشارہ کرتاہے۔ مجمع پھولوں سے لدے شخص کی جے جے کاربولتاہے ،اورجب لوگ اسے اپنے کندھوںپربٹھالیتے ہیںتووہ شخص اس بوڑھے فقیر کی جانب ایک نظربھی نہیں ڈالتا۔‘اس کاگدڑی نمااووَرکوٹ عین ناف کے اوپرسے پھٹاہواتھا۔ کھال سوکھ کرچمڑاہوگئی تھی اور پیٹ کنویں کی طرح اندردھنس گیاتھا۔ اس نے سوچا، دھنسے ہوئے کنویں کورنگوںسے اٹادے مگرلگا کہ اگررنگوں کے گودام بھی خالی ہوجائیں توبھی یہ کنواںنہیں اٹ سکتا۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔‘‘
تصویر بناتے بناتے اس نے آنکھیں موندلیں۔ اپنی ہی آواز گونجی۔’پیسا۔۔۔پیسا۔۔۔ایک پیسا۔۔۔‘اسے یاد آیا پچپن میں جب وہ آنکھیں میچ کرپیسے مانگنے والاکھیل کھیلتا توہمیشہ کوئی بچہ اس کے ہاتھ پرتھوک دیتا۔ اس نے دیکھاکہ بوڑھے فقیر کے پاس سے کوئی بچہ گزررہاہے ۔نہ جانے کیوںلگاکہ بچہ ضروربوڑھے کے ہاتھ پرتھوک دے گا۔ دل دھڑکنے لگااور رگوں میں دوڑتے خون کی رفتارتیز ہوگئی۔ ’خون ۔۔۔۔۔۔سرخ خون۔۔۔۔۔۔‘اب اس نے شیٹ پرچاروں طرف سرخ رنگ پوت دیاتھا۔ رنگ کچھ اس طرح بکھرا کہ شیٹ پربے شمار لال جھنڈے لہراتے نظرآئے۔ اسے لگاکہ بوڑھے فقیرکے دکھ درد کاحل ڈھونڈلیاگیاہے۔ تصویر کوغورسے دیکھا۔ تصویر، بوڑھے لاغر اوربے بس فقیرکی تصویرسرخ رنگ کے دائرے میں کچھ سہم سی گئی تھی۔ آرٹسٹ کی رگوں میں دوڑتے خون کی رفتار دھیمی پڑگئی اوراب اس کے برش کاسرخ رنگ زرد پڑچکاتھا۔ بوڑھے نے پیچھے ہٹ کردرخت کے تنے سے کمرٹکالی۔ درخت پر پھل لٹک رہے تھے۔ اس نے ڈرائنگ شیٹ پر درخت بنایا اورپھلوں کی جگہ بے شمارسکے لٹکادیے۔ ایک سکہ درخت سے ٹوٹا، لیکن جب وہ بوڑھے کے پاس آکر زمین پرگرا،توسکہ نہیں کسی پرندے کا کتراہواکچاپھل تھا۔
اب تصویرمکمل ہوچکی تھی۔۔۔
’’کتنی خوبصورت پورٹریٹ ہے۔‘‘کسی نے کہا۔
’’۔۔۔۔‘‘
’’جی ہاں آرٹسٹ نے کلر کمبینیشن پربہت زوردیاہے۔‘‘دوسرابولا۔
’’یہ آپ کے نئے بنگلے کے ڈرائنگ روم میں۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں، میں بھی یہی سوچ رہاتھا۔ مگرآئل پینٹنگ ہوتی توزیادہ اچھاتھا۔‘‘
’’لیکن صاحب آئیڈیا دیکھیے ۔وہ دیکھیے وہاں سے کچھ نیچے آکر پیڑسے ٹوٹاہواسکہ کسی پھل کی سی شکل اختیار کرنے لگا ہے اور زمین پرآتے آتے۔۔۔‘‘
’’ہاں بھئی پینٹنگ توبہت اچھی ہے ۔کتنے کی ہے یہ پورٹریٹ؟‘‘
’کتنے بتائوں۔۔۔۔جومانگوںگاوہی ملے گاآج تو۔‘
وہ ذہن میں جودام مقررکرتاوہ کبھی زیادہ لگتے کبھی کم۔ دونوں شخص سامنے کھڑے اس کے جواب کاانتظار کررہے تھے کہ اچانک اس نے کچھ کہا۔کیاکہا؟یہ وہ خود نہیں سن سکالیکن جب سامنے والے شخص نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے اس کی بتائی ہوئی رقم دہرائی تواس نے سوچا۔۔۔
’ایں یہ کیا!میں نے صرف اتنے ہی مانگے!اس سے زیادہ میں سوچ بھی تونہیں سکتاتھا۔ خیراتنے ہی کافی ہیں۔ یہ سب پیسے بوڑھے فقیرکودے دوںگا۔ اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانانہیں پڑے گا۔ ان پیسوںسے وہ کوئی چھوٹاموٹادھنداکر سکتاہے۔ کچھ نہیں توپتھرکی مورتیاں اورمورتیوںکی مالائیں بیچنے لگے گا۔‘
’’یہ لو۔۔۔‘اس سے زیادہ نہیں ۔ابھی توفریم بھی بنواناہے۔‘‘
’نہیں صاحب اس سے کم نہیں۔‘اس نے کہناچاہامگرمنہ سے کچھ نہ نکلااورچپ چاپ دی ہوئی رقم ہاتھ میں تھامے اٹھ کرکھڑاہوگیا۔
’کتناخوش ہوگا بوڑھافقیر۔ اتنی بڑی خوشی زندگی میں پہلی بارملے گی۔‘
جب وہ بوڑھے کے پاس پہنچاتواس نے ہاتھ پھیلاکرسوال کیا۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔ کچھ دیتاجابابو۔۔۔۔‘‘
چاہاکہ جھک کراس کے ہاتھ پرسارے روپیے رکھ دے مگر اس نے دیکھاکہ کچھ لوگ قریب سے گزررہے ہیں۔
اس نے ہاتھ روک لیا۔
’کیاسوچیںگے یہ لوگ۔ سمجھیںگے میں کوئی پاگل ہوں۔‘
وہ وہیں کھڑالوگوںکے گزرجانے کاانتظارکرتارہا۔
’میں یہاںکھڑاہوں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ میں اس طرح کیوںکھڑاہوں شایدوہ سوچ رہے ہوںگے۔‘
وہ دوچارقدم ٹہلتاہواآگے بڑھااورپھرپیچھے لوٹ آیا۔ بوڑھاحیرت زدہ نظروںسے دیکھنے لگا۔
’بوڑھاحیرت زدہ ہے، شاید میں نے فقیرکے ہاتھ پرنوٹوںکی موٹی گڈّی رکھ دی ہے۔‘
اس نے مسکرانے کی کوشش کی اورفقیرکی طرف دیکھا۔ فقیربھی مسکرارہاتھاگویاوہ فقیرنہ ہو قدآدم آئینہ ہو۔
آئینے میں کسی احمق کاچہرہ دکھائی دیا۔
’فقیر پھرمسکرارہاہے، دل ہی دل میں ہنس رہاہے گویاسوچ رہاہوکہ عجب سرپھرا شخص ہے۔‘
اب آرٹسٹ کاحلق خشک ہوگیاتھا۔ بوڑھے نے کھنکاراتواسے لگاکہ بوڑھافقیرقہقہہ مارکرہنس پڑاہے۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔‘‘
فقیر نے ہاتھ بڑھایا ۔ہاتھ خالی تھا۔ آرٹسٹ نے اپنے ہاتھ پرنظرڈالی ،اس کے اپنے ہاتھ میں نوٹوں کی موٹی گڈّی تھی۔ اسے محسوس ہواکہ بوڑھے نے اس کی ذہنی حالت پر ترس کھاکر پیسے لوٹادیے ہیں۔ پل بھرکے لیے لگاکہ وہ خودفقیرکی جگہ بیٹھا بھیک مانگ رہاہے۔ہاتھ خود بخود پیٹ پرپہنچ گیا۔
’بھوک لگ رہی ہے۔‘
بھوک تو اس وقت بھی لگ رہی تھی جب وہ گھرسے نکلاتھا۔
’پہلے چل کر کچھ کھالیاجائے۔ ‘اس نے سوچااورسامنے چائے کے ہوٹل میںگھس گیا۔
ہوٹل کابل چکانے کے بعدباقی روپیوںکوہاتھ میں تھامے ٹہلتاہواپھربوڑھے فقیر کے قریب آن پہنچا ۔فقیرنے کنکھیوں سے دیکھا اورتارتاراوورکوٹ کی جیب کوگھٹنوں میں دباکرمحفوظ کرلیا۔
’کمبخت سوچ رہاہے میں کچھ چھین کربھاگ جائوںگا۔‘
اس نے نفرت سے فقیرکی طرف دیکھا۔ ’وہ اوندھے منہ پڑاتھااوربہت سارے چاندی کے سکّے فرش پربکھرے ہوئے تھے۔ پولیس والوںنے تلاشی لی توگدڑی سے نوٹوںکی گڈیاں نکلنے لگیں۔ اخباروالوں نے فوٹوکھینچے۔ پلیٹ فارم پر بھیک مانگتاتھا۔ نحیف ونزارفقیر ۔۔۔اس بوڑھے سے بھی بدترحالت تھی اس کی۔‘
اب آرٹسٹ کے ہاتھ میں چندروپیے تھے ۔باقی ڈرائنگ شیٹ اوررنگ خریدنے کے لیے جیب میں رکھ لیے تھے اور گھوم کرفقیر کے پیچھے آگیاتھا۔ بوڑھاپہلوبدلنے لگا اوربیساکھی بھی کھسکا کرقریب کرلی۔
’نہ جانے کیاسمجھ رہاہے۔ مگرمجھے اس سے کیاغرض ۔مجھے تواس کی مددکرنی ہے۔ اگرمجبوری نہ ہوتی توپورے پیسے ہی دے دیتا ۔خیراتنے بھی اس کے لیے کافی ہیں۔‘
بوڑھاکھانساتولگاکہ بوڑھاپھرزورسے قہقہہ مارکرہنس پڑاہے۔ اس کاوہ ہاتھ جس میں روپیے تھے لرزگیا۔ یادآیا کہ جب اس نے دودن سے کھانانہیں کھایاتھااوراپنے ایک امیردوست سے کچھ پیسے ادھارمانگنے گیاتھاتوکتنی دیرتک یوں ہی بیٹھا رہا۔ کئی بارمانگنے کی کوشش کی مگرکوئی سہاراہی نہیں مل پایا کہ کس طرح بات شروع کرے۔ کسی امیرسے کچھ مانگنا کتنامشکل ہے۔ کیسی عجیب کیفیت تھی وہ ۔مگرآج کسی غریب کواتنے روپیے دینا ،ٹوٹے سینڈل اورپھٹی پتلون پہن کر اتنے روپیے دینااس مانگنے سے کہیں زیادہ مشکل ہوگیاتھا۔ ایک بارپھر فقیرکوپیسے دینے کی کوشش کی مگرلگاکہ اس کے چاروںطرف بھیڑجمع ہے اور سر پر راجاہریش چندرکامکٹ باندھے اسٹیج پرکھڑاکوئی کرتب دکھارہاہے۔ وہ اپنے آپ سے کشتی لڑرہاتھاکہ اسے ادّی پہلوان یاد آگیا۔
’ادّی پہلوان نے اس رکشے والے کو، جس سے ایک لالاچندپیسوں پرجھگڑا کررہاتھا، کس شان سے ایک بڑانوٹ دیاتھا۔ ’’کیوں جھگڑرہاہے بے ۔یہ لے ۔ یہ عزت دار لوگ کیادیںگے۔ انہیںتوغریبوں کودیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بے عزتی ہوتی ہے ان کی ۔دینے کے لیے ادّی کادل چاہیے۔ ‘‘سچ ہی کہاتھاادّی نے ۔دینے کے لیے ادّی کادل چاہیے۔ علاقے کے بدمعاش ادّی کا۔۔۔‘
ادّی پہلوان نے راجاہریش چندرکواٹھاکر زمین پرپٹخ دیاتھا۔ چاروںخانے چت۔ اس نے گھبراکر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ سامنے سے کچھ لوگ آرہے تھے۔
’ارے یہ تووہی لڑکی ہے۔۔۔‘
لڑکی نے اسے فقیرکے قریب کھڑادیکھا تومسکرادی۔
’یہ کیوںمسکرارہی ہے ۔کیااسے معلوم ہے کہ میں فقیرکواتنے پیسے ۔۔۔کیامیں شکل سے احمق معلوم ہوتاہوں؟‘
آرٹسٹ نے نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانے کی کوشش کی ،پھربھنویںسکوڑیں اوربولا۔
’’نہ جانے انڈیا سے یہ بھک منگے کب ختم ہوںگے۔‘‘
اب اس کانوینٹیئن لڑکی کے رومال کی خوشبوآرٹسٹ کے جسم میں اترگئی تھی۔ اس نے اپنی مٹھی کے سارے نوٹ جیب میں رکھے اورایک سکہ نکال کربوڑھے فقیرکے ہاتھ پراس طرح ڈال دیاجیسے سکہ نہ ڈالاہوبلکہ تھوک دیاہو۔ فقیر کاہاتھ سکے کے بوجھ سے کپکپانے لگا۔۔۔۔۔۔
’’بابوتیرابھلاہو۔۔۔‘‘
اس نے دیکھاکہ لڑکی کے ڈیڈی اب بھی اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہے ہیں۔وہ اس طرح چونکاجیسے ابھی کچھ اور کہنا باقی ہے ،اوربول پڑا۔
’’صاحب یہ لوگ کیساڈھونگ رچائے رہتے ہیں۔۔۔۔‘‘
اوریہ کہتاہوا تیزتیز قدموںسے آگے بڑھ گیا۔۔۔
کچھ دورجانے کے بعداس نے مڑکردیکھا ۔وہ دونوں شخص، جنہوںنے اس کی پورٹریٹ خریدی تھی ،بوڑھے فقیرکے وجودسے بے خبر ،ہنستے ہوئے اس کے سامنے سے گزررہے تھے اوربوڑھاہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہاتھا۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔۔‘‘





تین سال


علی جان کواپنے ماتھے پربندھے سہرے کی لڑیاں لوہے کی زنجیروں سے بھی زیادہ وزنی اورخوفناک لگ رہی تھیں۔ وہ پھولوں میں منہ چھپائے کچھ اس طرح سہما ہوا بیٹھا تھا جیسے چڑیا کابچہ سرپر باز کواڑتے دیکھ کر سہم جاتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ مرزامجید اپنے ساتھ گائوں کے پردھان ،داروغہ جی اور کچھ سپاہیوں کولے کر اس کے گھر میں داخل ہورہے ہیں تو وہ کانپ اٹھا۔
’’ارے میرالال۔۔۔علی جان۔۔۔میرابچہ۔۔۔‘‘
ماں کی چیخ اس کے کانوں میں دیرتک گونجتی رہی اورپھرآنکھوں میں اندھیراچھاگیا۔
منہ پرپانی کی چھینٹیں پڑتے ہی اس نے آنکھیں پھڑپھڑائیںاورگردن گھماکر دیکھا۔ بیگم مرزا سرہانے بیٹھی پنکھا جھل رہی تھیں۔ مرزامجید اس کے اوپر جھکے کھڑے تھے اورکہہ رہے تھے ۔
’’بیٹھے آنکھیں کھولو۔۔۔شاباش۔‘‘
پھراس کی کلائی پکڑکر بخار دیکھنے لگے۔ بیگم بولیں۔
’’اتنا محنتی بچہ ہے ،ذرا کام بتادو پھر ،دھوپ ہویابارش، کام پورا کرکے ہی دم لیتا ہے۔ اب دیکھونا لکڑی اوپر ڈالنے کے لیے کہاتھا، دن بھر اسی میں لگارہا۔ لٗو لگ گئی ناآخر۔‘‘
علی جان نے غنودگی کے عالم میں تھوڑی سی آنکھیں کھولیں اوردالان کی چھت کو گھورنے لگا مگر اسے چھت نظرہی نہ آئی۔
محسوس ہوا کہ دورتک آسمان پھیلاہوا ہے اورسفید بادل کے ٹکڑے اِدھر اُدھر اڑرہے ہیں۔
بادل؟
نہیں یہ توکاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ تاگے سے بندھے کاغذ کے ٹکڑے۔۔۔ہاتھ سے بنائی پتنگیں۔اورتاگے؟۔۔۔مرزا مجید کے لحاف گدّوں سے نکالے ہوئے تاگے۔
ایک راز جب بیگم مرزانے لحاف گدّے دھوپ میں ڈالنے کے لیے ٹانڈسے اتارے توان میں ڈورے غائب تھے ۔ مرزا نے علی جان کوڈانٹامگربیگم فوراً ہی بول پڑیں۔
’’کیاہوا اگرڈورے نکال لیے ۔ بچہ ہی تو ہے۔ ویسے بھی سردیوں میں روئی بدلوانی ہے۔‘‘
بہت دیرتک پتنگیں اڑتی رہیں ،پھراسے لگا کہ ساری پتنگیں ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں اورسیاہ ہوتی جارہی ہیں۔ کچھ دیر بعد وہاں ایک بھی پتنگ نہیں تھی۔ اس کی نظروں کے سامنے کڑیوں سے پٹی مرزامجید کے دالان کی چھت تھی جسے وہ گھورے جارہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی نگاہیں دالان کی چھت سے سرکتی ہوئی بڑے سے آنگن میں رینگنے لگیں۔ ایک کونے میں چوکی پربیٹھی بیگم مرزا دوپٹے پر سچے گوٹے کی گوٹ ٹانک رہی ہیں ۔اسے سچا گوٹا کتنااچھا لگتا ہے ۔وہ اکثر بیگم مرزا کی تلے دانی سے گوٹا نکال کر کرتے کے دامن پررکھ کر باربار دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ بیگم مرزا ایسا کرتے دیکھ لیتی ہیں توبھی کچھ نہیں کہتیں۔ کہیں بھی کیسے ،اسے تواپنی اولاد کی طرح پالاہے۔ ان کے پاس اللہ کادیا سب کچھ مگراولاد سے محروم ہیں۔ علی جان سچے گوٹے کو کلائی سے لپیٹ لیتا ہے اور اپنے ہاتھ میں ہتھکڑی ۔۔۔!
داروغہ جی نے اس کے ہاتھ میں بندھی رسی کوجھٹکادے کر کھینچا اوررسی سپاہی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولے ۔
’’اے رام داس، اس حرام زادے کوچوکی لے کر چل۔ میں مرزاجی کے ساتھ آتا ہوں۔۔۔‘‘
مرزاجی کاگھرانا گائوں کامعزز گھراناتھا۔ ان کامکان گائوں کے دوسرے گھروں کے مقابلے میں بڑااورخوبصورت تھا۔ آنگن اوربرآمدے کے فرش اور زینے کے علاوہ بیت الخلاء کے قدمچے بھی پکی اینٹوں کے بنے تھے۔ باقی پورامکان کچی اینٹوں کی چوڑی چوڑی دیواروں پرقائم تھا۔ کچی اینٹوں پرچکنی مٹی کالیپ اوراس پرچونے کی پُتائی ،یوں محسوس ہوتا جیسے مٹی کے ڈھیلوں کے بیچ چاندی کاکٹورا پڑا ہو۔ بالائی منزل پر دوبڑے بڑے کمرے تھے، جن کے سامنے والی چھتیں بھوسے کی گوڑی ملی چکنی مٹی سے لسی ہوتیں۔ مرزاصاحب کی جائیداد کاکافی حصہ بک گیاتھا۔ اب ان کی آمدنی کاذریعہ کچھ زمین تھی، جوبٹائی پردے رکھی تھی اورایک آم کاباغ تھا، جس سے سال بھر کی ضروریات پوری ہوجاتیں۔ اولاد کوئی تھی نہیں، محلے کے بچوں کوقرآن پڑھانے میں بیگم مرزاکادن کٹ جاتا۔ علی جان بھی ان سے قرآن پڑھنے آیا کرتا۔ اس کاباپ رسول خاں میواتی ، علاقے کانامی ڈکیت تھا۔ جوکئی سال سے جیل میں ایک قتل کی سزا کاٹ رہاتھا۔ علی جان کاگھر مرزا مجید کے مکان سے بالکل ملا ہواتھا۔ اس کی ماں کھجورکے پتوں کی چنگیریاں اورپنکھے بناکرگھر کاخرچ چلالیتیں۔ بیگم مرزا بھی علی جان کے گھر کا پورا خیال رکھتیں ۔علی جان لڑائی جھگڑے ،چوری چکاری سے دوربھاگتاتھا۔ اس کادل پڑھنے لکھنے کی طرف زیادہ مائل تھا۔ کئی سپارے شوق سے ختم کرچکاتھا۔ جس دن رسول خاں کی سزا پوری ہوئی اوروہ رہا ہوکر گھرلوٹا تواس نے علی جان کوپڑھنے سے اٹھالیا۔
’’بزدل بنے گاکیا؟ ان مرزائوں کی صحبت نے تجھے کسی دین کانہیں چھوڑا ۔بہادری سے جی۔۔۔عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر کوئی میواتی جیا ہے کبھی؟ اورتوہے کہ میری ناک کٹوانے پرتلا ہے۔۔۔حرام زادے۔‘‘
علی جان لرزگیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اب رسول خاں اکیلا نہیں ،کئی لوگوں کے درمیان کھڑا نظرآیا۔ پھر علی جان کولگا کہ رسول خاں کے گروہ کے آدمی اسے زبردستی پکڑکرجنگل کی طرف لے جارہے ہیں۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہے۔ بادل گرجتے ہیں تو اس کی رگوں میں خون جم جاتا ہے۔ اچانک ایک گڈھے میں اس کاپیر پڑگیا۔ وہ چیخنے لگا ۔
’’نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔مجھے چھوڑدو۔‘‘
کالے خاں نے اس کی گدی پرایک مُکا جمایا۔ وہ لڑکھڑا کرگرنے ہی والاتھا کہ رسول خاں کی کڑک آواز اس کے کانوں میں آئی۔
’’سیدھا چل نامراد۔۔۔بہت عیش کی کاٹ لی۔‘‘
وہ گرتا پڑتاآگے بڑھا ۔چاروں طرف گھوراندھیرا تھا۔ اس نے دیکھا سفید سفید کپڑے پہنے کئی آدمی ایک کھیت میں لیٹے ہوئے ہیں۔ رسول خاں کے ساتھ کالے خاں نے اس کے ہاتھ میں ایک کلہاڑادے دیا۔
’’یہ لے۔۔۔اوران سب کوایک طرف سے ختم کردے۔‘‘
’’ایں!۔۔۔نہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں کے بچے ۔۔۔‘‘
رسول خاں نے دونوں ہاتھ سے بال پکڑکراسے زمین پر گرادیا اور گھسیٹنے لگا اور ان سفید پوش انسانوں کے قریب لاکر کھڑا کردیا۔ اس نے غورسے دیکھ ا۔مرزامجید ۔۔۔ایک نہیں بہت سے مرزامجید سفید کپڑے پہنے کھیت میں لیٹے ہوئے تھے۔
’’نہیں بابا ۔۔۔میں مرجائوںگا۔۔۔نہیں۔۔۔‘‘
وہ زور سے چیخا ۔اسے محسوس ہوا کہ گلے کی ساری نسیں پھٹ گئی ہیں اوراس کی چیخ رکنے کانام ہی نہیں لیتی ۔ وہ چیختا ہی رہا بہت دیرتک ، اورپھررسول خاںنے اسے زور سے جھنجھوڑدیا۔ خیالوں کاسلسلہ ٹوٹا اوررسول خاں کی آواز کانوں میں پڑی۔
’’کیوں مراجارہا ہے ۔۔۔اُٹھ ۔۔۔‘‘
علی جان کی ماں کھڑی رورہی تھی ۔رسول خاں نے لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
’’مجھے توشک ہے کہ اس کی رگوں میں میرا خون ہے یاکسی اور کا۔۔۔‘‘
پھررسول خاں اپنے ماتھے کوپکڑتے ہوئے زمین پراکڑوں بیٹھ گیا، جیسے سارے جتن بیکار چلے گئے ہوںاوربولا۔
’’اچھاتوایساکر ۔۔۔کل سے ابراہیم لوہار کے یہاں کام کرنے جایاکر۔ وہ کل ہی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ہتھوڑاپیٹنے کو ایک لڑکے کی ضرورت ہے ۔‘‘
گرمی بہت ہے ۔علی جان کے پورے بدن سے پسینے کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔ ابراہیم لوہار کے ٹھِیے پرہتھوڑے کی چوٹیں مارتے مارتے دونوں بازو سُن ہوگئے ہیں۔
پسینہ خشک ہورہاہے ۔بیگم مرزاکو پسینہ آتابھی بہت ہے ۔وہ ان کے سرہانے بیٹھا پنکھا جھل رہا ہے۔ بیگم نے کروٹ لی اور آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔
’’سوتا کیوں نہیں علی جان۔۔۔جابرآمدے میں سوجا۔ اچھالے یہ کنگن اورہارلے جاکر تحویل میں رکھ دے ۔ کم بخت گرمی میں زیورپہننا بھی عذاب ہے۔‘‘
چابی کاگچھااورزیورعلی جان کے حوالے کرکے بیگم نے آنکھیں بند کرلیں۔ علی جان نے تجوری میں گنگن اورہاررکھ کر چابیاں بیگم کے تکیے کے نیچے رکھ دیں۔
’’تونے سنڈانسی کہاں رکھی علی جان؟‘‘
’’آپ کے سرہانے ۔۔۔‘‘
’’ایں۔۔۔؟‘‘
ابراہیم لوہار چونک پڑا۔
ایک ڈکیتی کے جرم میں رسول خاں کوپھرتین سال کی سزا ہوگئی ۔ علی جان کوموقع مل گیا۔ اس نے لوہارکوسلام کیااور مرزا کے گھرآن پہنچا۔ دالان کے درسے چپٹ کر کھڑاہوگیا اورانگلیوں پرکچھ حساب لگانے لگا۔
’’تین سال ۔۔۔یعنی چھتیس مہینے ۔۔۔‘‘
پھرخوش ہوکر بیگم مرزاسے پوچھنے لگا۔
’’چاچی کیاتین سال میں قرآن ختم ہوجائے گا۔؟‘‘
’’کیوں نہیں بیٹا ۔۔۔تم محنت سے پڑھوگے تودوسال ہی میں۔۔۔‘‘
وہ اچھلنے لگااورپھراچھلتے اچھلتے اس کے پائوں اس ڈھب سے پڑنے لگے جیسے مجذوب کو حال آگیا ہو۔
’’دوسال میں قرآن مجید ختم۔بچاایک سال۔۔۔ایک سال میں توکئی بار دہراکرپکّاکرلوںگا۔۔۔‘‘
سپاہی نے اس کے ہاتھ بندھی رسی کوزورسے کھینچا۔
’’تیز تیز چل۔۔۔یہ اونگھ کیوں رہا ہے؟‘‘
اس کاحلق بالکل خشک ہے، بہت زور کی پیاس لگی ہے۔ دھوپ بہت تیز ہے۔ دھوپ مرزاکے صحن کی دیوارمیں بنی گھڑونچی سے ہوکر منڈیرتک پہنچ گئی ہے۔ علی جان بالٹی میں پانی بھر کر چھت پرچڑھ گیا ہے۔ دن بھر کی تپتی ہوئی چھت پر جب چھڑکائو کیاتومٹی سے سوندھی سوندھی خوشبوپھوٹنے لگی۔ زمین کی تپش کم ہوئی توا س نے کمرے سے دوپلنگ نکال کر بچھا دیے اوروہیں ایک چارپائی پرلیٹ کر اس طرح کروٹیں لیتا رہا جیسے وہ نہیں ،مرزامجید لیٹے ہوں۔ کچھ دیر بعد نیچے اترکر گھڑونچی سے ایک گھڑا اٹھالایا اوراس پرپیتل کاکٹورا ڈھک کرچھت پر رکھ دیا۔ چھت کی قد آدم منڈیر یں بارش سے دھل دھل کر بالکل ختم ہوچکی تھیں اورمحلے کی تمام چھتیں مل کرایک میدان سابن گیا تھا۔ مرزا اوربیگم گرمیوں میں چھت پرسوتے تھے ۔گائوں میں چوپالیں اوربڑے بڑے میدان ہونے کی وجہ سے چھت پر سونے کارواج نہیں تھا، اس لیے محلے کی دوسری چھتیں سونی پڑی رہتیں، بات کچھ بھی ہومرزامنڈیریں اونچی نہ کرانے کی یہی وجہ بتاتے ۔۔۔
سورج غروب ہونے کے بعد بیگم روٹی ہنڈیالے کر چھت پرہی آجایاکرتیں۔ محلے کی تمام عورتیں اپنی اپنی چھتوں سے ہوکر بیگم مرزاکے پاس آبیٹھتیں ۔بیگم ان کی خاطرداری پان سے کیاکرتیں۔ عورتیں پان چبڑچبڑچباکروہیں پیکوں کے ڈھیر کردیتیں اورعلی جان چپ چاپ منڈیر پر بیٹھاپیکوں کودیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا۔ جیسے ہی مرزادروازے کی کنڈی بجاتے وہ بھاگ کر کواڑ کھول دیتا۔ تمام عورتیں چلی جاتیں۔ مرزااوپر ہی کھانا کھاتے اورکھانے سے فارغ ہوکرخبریں سناکرتے ۔ علی جان بھی منڈیر پربیٹھا غورسے ریڈیو سنتااوراس طرح سرہلاتا جیسے سب کچھ سمجھ رہا ہے۔ اچانک بیگم مرزا کی آوازاسے چونکا دیتی۔
’’جائو بیٹا، بہت رات ہوگئی ہے ۔تمہاری اماں راہ دیکھ رہی ہوں گی۔‘‘
اورعلی جان بسم اللہ کی چھت سے اترکرچلاجاتا۔ لیکن صبح مرزا اوربیگم کے اٹھنے سے پہلے ہی بیلے کے پھول باغ سے توڑکر لے آتااور ہاربناکر گھڑوں کی گردنوں میں پہنادیتا۔ کچھ پھولوں کے گجرے بناکر بیگم کے لیے رکھ دیتا۔ بیگم اٹھتیں توکانوں میں گجرے پہن لیتیں۔ یہ اس کاروز کامعمول تھا۔
’’تیز تیز چل ۔۔۔‘‘سپاہی نے پھرعلی جان کے ہاتھ بندھی رسی کو زور سے کھینچا ۔علی جان جیسے کھنچتا ہی جارہا ہے۔ اس کی عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب وہ انیس سال سے اوپر نکل چکا ہے ۔ اس کے باپ کوگزرے کئی سال ہوگئے ہیں۔ ماں سمجھاتے سمجھاتے گونگی ہوتی جارہی ہیں۔
’’اب تو کہیں جاکر کمانگوڑے ۔۔۔اب تو جوان ہوگیا ہے۔ مرزاجی کے پاس بھی اتنا کہاں ہے کہ تیرے لیے کچھ کرسکیں۔ توہے کہ ہٹا کٹا پھرے ہے۔ کمانے کے نام پر ڈھیر۔ مِٹے میواتیوں میں شادی بیاہ کاالٹاہی رواج ہے ۔لڑکے والے کو پیسے دینے پڑے ہیں لڑکی بیاہ کرلانے کے لیے ۔میرے پاس کہاں روکڑدھری ہے جوگوناکر لائوںگی۔ تیرے بابا توچھوٹے خاں کی لونڈیاکے سنگ سگائی کرکے اللہ کوپیارے ہوگئے۔ مجھے طعنے سننے پڑے ہیں۔ دودوکوڑی کی لگائیاں کہتی پھرے ہیں کہ ’لگے ہے سگائی توڑنی پڑے گی‘۔۔۔اورتیرے کان پہ جوں تک نہ رینگے ہے۔‘‘
اس کی ماں بڑبڑاتی رہیں اوروہ اٹھ کرچل دیا مگراب محسوس کرنے لگاتھا کہ ماں کی باتیں ہروقت اس کاپیچھا کرتی رہتی ہیں۔ اسے اپنے اندر ایک انجانی سی کھلبلی کااحساس ہوا۔
مریم، چھوٹے خاں کی بیٹی مریم۔۔۔اورایک موٹی رقم کی مانگ۔۔۔
جب اس کے چھوٹے چچیرے بھائی کی شادی ہوئی تولگاکہ مریم اس کے دل میں اِدھرسے اُدھر باربار کروٹ بدل رہی ہے۔ دل بیٹھنے لگا ۔مریم۔۔۔عورتوں کے طعنے ۔۔۔شادی۔۔۔مگرروپیے۔۔۔؟اس کی گانٹھ میں تو دوروپلّی بھی نہیں تھیں۔
جاڑوں کی سیارہ رات تھی۔ وہ گاڑھے کی رضائی میں سرچھپائے سورہاتھا۔ چچیرے بھائی کے بسترسے اُبھرنے والی کھسرپھُسر کی آواز سے اس کی آنکھ گھل گئی۔ کان لگاکر میاں بیوی کی باتیں سننے لگا۔ اسے اپنے جسم کے ہرحصے میں ان کی باتیں جذب ہوتی محسوس ہوئیں۔ کھسرپھسر آوازیں تیز ہوگئیں۔
مریم۔۔۔!
اسے باربارلگتا کہ مریم دلہن بنی سامنے کھڑی ہے اوروہ سینہ تانے اس کی طرف بڑھ رہا ہے مگراچانک ا س کے کندھے جھک جاتے جیسے کسی نے روپیوں کی گٹھری اس کے کندھوں پر لاددی ہو۔ وہ پھر کان لگا کر کوٹھری میں گونجتی آواز سننے لگتا ہے ۔ رضائی کے اندرا س کادم گھٹنے لگا تومنہ سے رضائی ہٹاکر پھینک دی۔ کوٹھری میں سرسوں کے تیل کادیا جل رہا تھا۔ اس نے گردن اٹھائی اورٹاٹ کے پھٹے پردے سے جھانک کراپنے چچیرے بھائی کے بستر کی طرف دیکھا۔ اس کی جورواس سے چمٹی ہوئی لیٹی تھی اوراپنی بھاری بھرکم ران اس کے پیٹ کے اوپر رکھے ہوئے تھی۔ علی جان نے منہ ڈھانپ لیا اوراپنی ہونے والی جورو مریم کاتصور کیے رات بھرکروٹیں بدلتا رہا۔ خداخدا کرکے جاڑوں کی رُت بیت گئی اورکھسرپھسر کی آوازوں سے چھٹکارامل گیا۔ اب وہ اپنی کھاٹ آنگن میں بچھا کر سوتا۔
آج علی جان کے دل کی طرح موسم میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔اندھیری رات اور اس پربادل کی گرج کے ساتھ بجلی کی چمک۔ علی جان کے جسم میں بھی بجلی چمک رہی ہے اورباربار اسے اپنے اندر گرج سی محسوس ہوتی ہے۔ بدن سلگ رہا ہے، بادل گرج رہے ہیں اورموسلادھار بارش ہورہی ہے۔جب علی جان بارش میں بھیگ گیااورجاڑے سے کپکپانے لگا تواس نے کھاٹ چھپر کے نیچے کھینچ لی ۔چھپر میں لٹکی لالٹین سے بدن سینکنے لگا لیکن لالٹین اس کے جسم کو گرم نہ کرسکی، اسے تومریم کی گرمی چاہیے تھی اورمریم کوپانے کے لیے جیب کی گرمی ۔۔۔وہ رات بھر چھپر کی تھنکیاسے لگاکانپتارہا اورچھپرکے پھٹنے کی دعامانگتا رہا۔
علی جان کے سرسے سہرے کی لڑیاں ٹوٹ کرزمین پرگرپڑی تھیں۔ چاروں طرف بہت سے لوگ جمع تھے جوسپاہی کو روکے کھڑے تھے اوراس سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ اس نے دیکھا،لوگ جوتوں سے بیلے کے پھول مسلتے ہوئے گزررہے ہیں۔
بیلے کے پھول!
وہ حسب معمول بیلے کے پھولوں کے ہار گھڑوں کی گردنوںمیں پہنا چکاتھا۔ مرزاناشتے کے بعد باہرجانے ہی والے تھے کہ کسی نے کُنڈی کھٹکھٹائی ۔علی جان بھاگ کر دروازے پرجاپہنچا اورکواڑ کھول دیے۔
’’کون ،نتھوچاچا؟اچھاآم لے کے آئے ہیں۔‘‘
نتھورام نے آموں سے بھراپٹھونیچے رکھااورجیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ۔
’’مرزاجی گھر میں ہیں؟ باغ کے پیسے دینے ہیں۔‘‘
مرزامجید نے آواز دی۔
’’کون ہے ؟علی جان اندربلالو۔‘‘
نتھورام اندرآگئے اورمرزاکے ہاتھ میں سوسوکے نوٹوں کی گڈی تھماکربولے ۔
’’یہ لو مرزا جی بیعانہ کاٹ کرباقی کے۔ اب حساب بے باق۔‘‘
نتھوٹھیکے دار اُٹھ کر چلے گئے ۔مرزامجید کے ہاتھ میں روپیوں کی گڈی ہے ۔علی جان کولگا کہ مرزامجید کے پیچھے کہیں مریم چھپی ہے۔ وہ باربار ان کی طرف اچٹتی سی نظرڈالتا مگراس کی نظربری طرح کانپنے لگتی۔ مرزامجید نوٹوں کی گڈی بیگم کوتھماکر باہر چلے گئے۔ بیگم نے نوٹ گنے اور ازاربند سے چابی کاگچھا کھول کرعلی جان کودیتے ہوئے کہا۔
’’لوبیٹے چابی لو اورروپیے تحویل میں رکھ دو۔ سنبھال کے رکھنا پورے سال کا خرچہ ہے۔‘‘
علی جان نے گڈی کو مُٹھی کی مضبوط گرفت میں لے لیا۔چابیاں لے کر تجوری کی طرف بھاری بھاری قدموں کوڈھکیلتا ہوابڑھا لیکن اس کے قدم مرزاکے گھر کی دیواروں کو پھلانگ جاناچاہتے تھے ۔اس نے تجوری کے تالے میں بڑی سی چابی گھمائی لیکن چابی تالے میں نہیں اس کے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ اب اس کے ذہن کے وہ کواڑ کھل گئے جوپیدائش سے اب تک بند تھے۔ وہ ذہن پر جمی میل کی اس پرت کو کھرچ کر پھینک دیناچاہتا تھا جسے آج تک ایمانداری اوروفاداری کامقدس دوشالہ سمجھتا آیا تھا۔ تجوری کے دونوں پٹ کھل گئے۔ وہ بھی اس کی جیب کی طرح خالی تھی۔ وہ نوٹوں کی گڈی کواس میں رکھتے رکھتے رک گیا کہ اسے چھوٹے خاں کی پھیلی ہوئی جھولی نظرآرہی تھی ۔وہ جھولی ،جواس سے نوٹوں کی شکل میں اس کی وفاداری اورایمانداری کے خون کی بھیک مانگ رہی تھی۔
چھوٹے خاں کی بہو کے طعنے ۔۔۔اس کی بوڑھی ماں کی عزت۔۔۔ چچیرے بھائی کی جورو کی بھاری بھرکم ران۔۔۔
’’کیاوہ نوٹوں کی گڈی چھوٹے خاں کی جھولی میں ڈال دے ؟‘‘
اس نے جلدی سے گڈی کو اپنے تہہ بند میں اڑس لیا۔
’’بیٹے یہ لو۔۔۔سنبھال کے رکھنا،پورے سال کاخرچہ ہے۔‘‘
اسے لگا کہ تہہ بند کی گانٹھ ہولے ہولے کھلتی جارہی ہے ۔ وہ گانٹھ کسناچاہتاتھا کہ بیگم کی آواز کانوں میں گونجی ۔
’’یہ لے بیٹا۔۔۔میںنے تیرے لیے کرتہ سی دیا ہے۔ اورباہر چھینکے پر کھیر رکھی ہے ،اپنی ماں کے لیے لیتے جانا۔‘‘
اچانک تہہ بند کی گانٹھ کھل گئی اورگڈی فرش پرگرپڑی ۔گڈی کی ہلکی مگرخوفناک آواز نے اس کے جسم میں لرزہ پیداکردیا۔جھک کرگڈی اٹھائی اورچاروں طرف دیکھنے لگا۔ کمرے کی دیوار پرلگی مرزاکی تصویر اسے گھوررہی تھی ۔ وہ تصویر سے آنکھیں نہ ملاسکا اورسہم گیا۔ نوٹوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑکر غورسے دیکھنے لگا۔ نوٹوں سے ہٹ کر اس کی نظر اپنے ہاتھوں پرپڑی ۔اپنے ہاتھ کالے نظر آئے۔ آنکھیں بند کیں تومریم کے ہاتھ پیلے دکھائی دیے۔ آنکھیں کھولتا تو کالا اوربند کرتا توپیلا رنگ اس کے وجود میں اترجاتا۔ جب اپنے ہاتھ کالے نظرآتے تونگاہیں تجوری کی جانب اٹھ جاتیں ،مگرجب مریم کے ہاتھ پیلے ہونے لگتے تواسے تہہ بند کی گانٹھ ہی دکھائی دیتی۔ کبھی پیلے توکبھی کالے ہاتھوں کودیکھتے دیکھتے اس نے پھرایک بارمرزا کی تصویر دیکھی۔ اب اسے ان آنکھوں میں اپنے مرحوم باپ کی تصویر نظرآرہی تھی ،جواس سے بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ علی جان نے ہمت کی اورتہہ بند میں نوٹوں کورکھ کر مضبوطی سے انٹی کس لی اورچابی کاگچھا بیگم کو واپس کرکے چلاگیا۔ دوسرے دن مرزانے پوچھا۔
’’بیگم آج علی جان نہیں آیا، کیابات ہے؟
بیگم نے کہا۔
’آیاتھا، کچھ طبیعت خراب تھی ،اس لیے چلاگیا۔‘‘
کئی روز تک علی جان نہیں آیا۔ بیگم مرزا پریشان ہونے لگیں۔
’’کہیں طبیعت زیادہ خراب تونہیں ہوگئی؟‘‘
وہ بسم اللہ کی چھت سے اترکر علی جان کو دیکھنے گئیں۔ دیکھا کہ علی جان کے گھر کچھ لوگ جمع ہیں اوروہ دولھا بنا ہوا ہے۔ انھیں ایک انجانی سی خوشی کااحساس ہوا۔
’’مگرمجھے مدعوکیوں نہیں کیاگیا۔۔۔؟ مجھے اطلاع تک نہیں اور یہاں ۔۔۔آخر علی جان پر میرابھی توکچھ حق ہے۔‘‘
انھیں لگا کہ ان کے سامنے چھوٹے چھوٹے بہت سے سانپ رینگ رہے ہیں۔
’’مگرمیواتیوں کے رواج کے مطابق شادی کے لیے لڑکے والوں کوایک رقم اداکرنی پڑتی ہے ۔راتوں رات علی جان کے ہاتھ یہ رقم کہاںسے لگ گئی؟‘‘
اب ان کی آنکھوں کے سامنے بہت موٹاسااژدہا منہ کھولے کھڑاتھا۔پھرانھیں یاد آیاکہ کچھ دن پہلے باغ کے روپیے علی جان کو تجوری میں رکھنے کے لیے دیے تھے ،کہیں وہی تو نہیں۔۔۔؟
’’نہیںنہیں،یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔میں اسے بچپن سے جانتی ہوں ۔کبھی گھر کی ایک کیل بھی ادھرسے اُدھرنہیں کی۔ میں تو زیور ،روپیہ پیسا، سب اسی سے رکھواتی تھی۔ ‘‘
بیگم مرزایہ سوچ ہی رہی تھیں کہ علی جان کی نظربھیڑکوچیرتی ہوئی ان پر پڑی اوروہ چونک کررہ گیا ۔اس نے سرپربندھے سہرے سے اپنامنہ چھپالیا ۔اس کے چہرے پرتوپردہ پڑگیا مگربیگم مرزاکی آنکھوں پرپڑاہواپردہ آہستہ آہستہ سرکنے لگا۔ انھیں محسوس ہوا کہ آج وہ پھول، جوعلی جان برسوںسے ان کے گھڑوںکی گردنوں میں پہناتاچلاآیا ہے ،سمٹ کر اس کے سہرے کی لڑیوں میں آگئے ہیں۔ وہ الٹے پائوں گھرآئیں اورلگیں تجوری کھکھوڑنے ۔تجوری خالی تھی ۔ان کے پائوں تلے زمین نکل گئی اورچہرے پرہوائیاں اڑنے لگیں ۔اتنے میںمرزا جی بھی آپہنچے۔
’’کیابات ہے بیگم ،تم پریشان کیوں ہو؟‘‘
بیگم نے تجوری بندکی اورکہا۔
’’کچھ بھی تونہیں۔۔۔‘‘
مگرمرزا نے تجوری کوکھول کردیکھا،وہ خالی تھی۔
سپاہی نے گائوں کے لوگوں کودھتکارا۔’’بھیڑ کیوں لگارکھی ہے ،چلواپناکام کرو۔‘‘ اورعلی جان کودھکے مارمارکر اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ علی جان کی ماں پچھاڑیں کھاتی ہوئی آئیںاوربلک بلک کررونے لگیں۔
’’ارے میرے لال کوکہاں لے جارہے ہو؟ اس نے کیاکیا ہے؟‘‘
’’یہ توتب پتا چلے گا ،جب تین سال جیل میں چکی پیسے گا ،پورے تین سال ۔۔۔‘‘
جب علی جان گلی میں مرزامجید کے گھر کے سامنے سے گزرا تو بیگم مرزا کواڑ کی آڑ میں کھڑی جھانک رہی تھی ۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ علی جان رک گیا اور اپنی خشک آنکھوں کواس طرح پونچھنے لگا جیسے اپنی نہیں بیگم مرزاکی آنسوبھری آنکھیں پونچھ رہا ہو، اورپھر انگلیوں پرکچھ حساب لگانے لگا۔
’’تین سال۔۔۔یعنی چھتیس مہینے۔۔۔‘‘
بیگم مرزانے کانپتا ہوا ہاتھ منہ پررکھا اور دھڑسے دروازہ بند کرلیا۔






بندوق


شیخ سلیم الدین عشاء کی نماز کے بعد حویلی کے دالان میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے ۔ان کابیٹا غلام حیدربھی مونڈھا کھینچ کران کے پاس ہی آن بیٹھا۔ ’’ابّاحضوران دنوں فضاٹھیک نہیں ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ بازار میں کچھ مشکوک چہرے آپ کا تعاقب کرتے ہیں۔ وہ قصبے سے باہر کے لوگ ہیں۔ تیج پالؔ سے آپ کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے تھے۔‘‘
شیخ سلیم اسی طرح حقّہ پیتے رہے، جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
’’عشاء کی نماز گھر ہی پڑھ لیاکیجیے۔۔۔‘‘
اس فقرے پرعام حالات میں وہ برس پڑتے لیکن آج خاموش بیٹھے رہے۔ تھوڑے توقف کے بعد صرف اتنا کہا۔
’’صدردروازہ بند کرلو۔‘‘
یہ کہہ کر شیخ صاحب اٹھے ،حقے کی چلم الٹی اوراپنے بستر پرجاکر لیٹ گئے۔
شیخ سلیم الدین کے مزاج اوراخلاق سے قصبے کے ہی نہیں قرب وجوار کے لوگ بے حدمتاثر تھے ۔ معزز گھرانا تھا۔ چھوٹا بڑاہرشخص ان کااحترام کرتاتھا۔ وہ سبھی کے دکھ درد میں شریک رہتے۔ کسی کوخبر بھی نہ ہوتی اورحاجت مندوں کی ضروریات پوری ہوجاتیں۔ وہ لوگوں کی طرح طرح سے مدد کرتے۔ غریب لڑکیوں کی شادیاں کرواتے، کاروبار شروع کروانے کے لیے پیسوں کاانتظام کرتے ،بچّوں کی پڑھائی کے لیے وظیفے دیتے، غرض یہ کہ انسانوں کے کام آنے میں انھیں ایک خاص قسم کی لذّت کااحساس ہوتا۔ قصبے میں دوسرے بااثرگھرانے بھی تھے۔ کنورماجد علی خاں۔۔۔کیادبدبہ تھا ۔ مرزااکبرعلی خاں۔۔۔بات بات پر بندوق نکال لیتے۔ ڈاکٹرابراہیم۔۔۔پڑھے لکھے تھے، مطب توچلتانہیں تھا مگرقصبے کی سیاست میں اچھاخاصہ دخل تھا۔ یہ سب نعمتیں توشیخ صاحب کومیسّر تھیں نہیں ،ہاں ایک چیز تھی جس سے دوسرے لوگ محروم تھے اوروہ تھی قصبے کے سبھی لوگوں کی محبت ۔یہی وجہ تھی کہ ہروقت ان کی بیٹھک میں لوگ جمع رہتے۔ رمضان کے مہینے میں روزانہ دس بیس آدمی ان کے ساتھ افطار میں شریک ہوتے۔ کچھ لوگ توجگانے کے بہانے آکرسحری بھی ساتھ ہی کرتے ۔مندرمیں کتھا ہو یاہنومان اکھاڑے میں دنگل، چندہ وصول کرنے پنڈت ہرپرشاد سب سے پہلے ان کی چوکی پر پہنچتے۔ ان کاخیال تھا کہ ابتداء شیخ صاحب سے ہو تو چندہ زیادہ ملتا ہے۔ رام لیلا کے لیے گھر کے سارے تخت، جازم اورفرش پورے دس دن کے لیے بڑے مندرپہنچادیے جاتے۔ کیاہندو، کیامسلمان سبھی ان پرجان دیتے تھے اورآج ان کااپناخون کہہ رہا ہے کہ لوگ ان کی جان لینا چاہتے ہیں۔ پہلی بار جب غلام حیدر نے یہ بات کہی تھی تووہ چونک پڑے تھے لیکن فوراً ہی سنبھل گئے۔ اب توجیسے وہ سنتے ہی نہیں ۔کئی روز سے غلام حیدر سمجھانے کی کوشش کررہا ہے:
’’ابّاحضور بندوق خرید لیجیے ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بستی میں سبھی کے پاس ہے ۔کنورماجد علی خاں توآج کل بغیرضرورت ہی بازارمیں بندوق لیے گھومتے ہیں تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ ان کے پاس۔۔۔‘‘
’’اورمرزاصاحب۔۔۔؟
وہ اب روزانہ شکارپر جانے لگے ہیں۔ ڈکٹر ابراہیم نے سیدانوارحسین کوبھی لائسنس دلوادیا ہے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘شیخ سلیم الدین نے لمبی سانس لی ،شاید وہ غلام حیدر کی گفتگو کاسلسلہ منقطع کرناچاہتے تھے مگروہ اسی طرح بولتا رہا۔
’’مکرّم یارخاںاپنے کھلیان پرخودجاکرسوجاتے ہیں اورساتھ میں بندوق والے دوپہرے دار بھی ہوتے ہیں۔ ہر شخص وقت کے مزاج کوسمجھ رہا ہے، بس ایک آپ ہیں کہ ۔۔۔‘‘
’’غلام حیدر ،میرے پاس بھی بندوق ہے۔‘‘انھوںنے تلخ لہجے میں کہا ۔
’’آپ کے پاس ؟‘‘
’’تم نے ابھی تک نہیں دیکھی؟‘‘
’’حیرت ہے !‘‘
’’حیرت تومجھے تم پر ہورہی ہے۔‘‘
’’لیکن آپ نے آج تک کبھی چلائی نہیں۔آپ توبندوق پکڑنا بھی ۔۔۔‘‘
’’خیرچھوڑو اس بحث کو۔۔۔‘‘
اوردونوں خاموش ہوگئے ۔کئی دنوں تک اس موضوع پرگفتگونہیں ہوئی۔ لیکن جب پورے علاقے میں دنگا پھیل گیا توشیخ سلیم الدین کاقصبہ نظام پور بھی اس کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ حویلی کے صدردروازے کے موٹے موٹے کواڑوں میں تالاڈال دیاگیا۔ شیخ سلیم الدین کی زندگی میں پہلی بار حویلی کاصدردروازہ دن میں بند ہواتھا۔ غلام حیدر نے خبردی کہ ’’ہمارے سب لوگ بستی چھوڑکر جارہے ہیں۔ کنورماجد علی خاں کی کوٹھی جلادی گئی ہے۔ مرزااکبرعلی خاں کوان ہی کی بندوق سے ہلاک کردیاگیا ہے۔ اور۔۔۔اورساراقصبہ خالی ہوگیا ہے۔‘‘
شیخ سلیم الدین نے بہت مشکل سے اپنے جھکے ہوئے سرکو اوپر اٹھایااورخالی خالی نظروںسے غلام حیدر کاچہرہ گھورنے لگے’’اب کیاہوگا ابّا حضور؟ ہماراتوکوئی سہارانہیں۔ نہ کوئی عزیز ہے اورنہ رشتے دار۔ پورے محلّے میں ہمارااکیلاگھر ہے ۔آپ ہیں کہ ۔۔۔کہتے ہیں ،تم نے دیکھی نہیں۔۔۔
غلام حیدر مستقل بولے جارہا تھا اورشیخ سلیم بالکل خاموش تھے۔ یہ خاموشی کسی گہرے اطمینان کانتیجہ نہیں تھی بلکہ آج ان کے چہرے پر پریشانی کے آثارصاف طورپر نمایاں تھے۔ پہلی بار ان کے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی میںجنبش ہوئی تھی۔
اندھیرا ہوتاجارہا تھا ،سنّاٹے نے خاموشی کے گولے داغنے شروع کردیے تھے اورپوری حویلی خوف وہراس کی دبیز چادرمیں سہمی سمٹی آسمان پرنظریں گڑائے شیخ سلیم الدین کو کوس رہی تھی کہ اچانک پھاٹک پرزورداردھماکہ ہوا۔ شیخ صاحب اچھل پڑے ۔غلام حیدرنے گھرکی عورتوںاوربچّوں کومحفوظ کمرے میں بند کردیا اورخود زینے پرچڑھ کر پیچھے کے راستے گھروالوں کونکال لے جانے کی راہ تلاش کرنے لگا۔
’’مگرجائیں گے کہاں؟ جن کے یہاں جاسکتے تھے ،وہ سب تومارے گئے یاکوچ کرگئے۔‘‘
’’غلام حیدر۔۔۔غلام حیدر۔۔۔‘‘شیخ صاحب نے اپنے بیٹے کواتنی دھیمی آواز میں پکارا کہ غلام حیدر توکیاسنتا ،خود شیخ صاحب بھی اپنی آواز نہ سن سکے۔ لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ خاصے فاصلے پرہونے کے باوجود غلام حیدر نے اپنے بوڑھے والد کی آواز سن لی اورقریب آکر بولا’’آہستہ بولیے ابّاحضور۔۔۔ حویلی کے پچھواڑے کچھ لوگ جمع ہیں۔‘‘ گہری سانس لی اور پھربڑبڑانے لگا۔’’لگتا ہے صبح ہوتے ہوتے ہم سب اسی حویلی میں دفن کردیے جائیں گے۔ بچنے کی کوئی تدبیر نہیں۔‘‘
’’کوئی تدبیر نہیں توپھرصدردروازہ کھول دو‘‘
’’ضرور کھول دیتا اگر اس وقت گھرمیں بندوق ہوتی۔ کوئی آپ کی طرح بھی زندگی گزارتا ہے؟اتنی بڑی جائیداد اور۔۔۔‘‘
’’اچھا حبس بہت ہے ،عورتوں اوربچوں کوجس کمرے میں بند کیا ہے کم سے کم وہ توکھول دو۔‘‘
ایک اوردھماکہ ہوا، جیسے ککیّا اینٹوں سے بنی حویلی کی برسوں پرانی دیوار گرادی گئی ہو۔ سب کے دل دھک سے رہ گئے ۔ عورتیں منھ پر دوپٹے رکھ کر کانپنے لگیں اورگھٹی گھٹی وحشت ناک آوازیں نکالنے لگیں۔ شیخ سلیم الدین نے محسوس کیاکہ عورتوں والے کمرے اورحویلی کے باہر سے آنے والی آوازوں میں بڑی حدتک مناسبت ہے ۔دیرتک یہ پراسرار آوازیں آتی رہیں ۔ انھوںنے اندازہ لگایا کہ جس تیزی سے دیوار گرنے ،درواز ے ٹوٹنے اورزمین کھودنے کی آوازیں آرہی ہیں ،اس حساب سے تواب تک ہم سب قتل کرکے دفن بھی کردیے گئے ہوتے مگر۔۔۔
انھوں نے خود کوٹٹولا، غلام حیدر کودیکھا، عورتوں کی آوازیں سُنیں اورگہری سانس لے کربولے۔’’اللہ حفاظت کرنے والا ہے۔ اب توصبح ہونے ہی والی ہے۔ غلام حیدر،مؤذّ ِ ن کی کوئی خبر ملی؟‘‘
’’نہیں ،کچھ پتانہیں چلا۔‘‘
’’ایساتوکبھی نہیں ہوا۔‘‘
دونوں تھوڑی دیر خاموش بیٹھے رہے، پھر ایک منحوس آواز دونوں نے سنی۔ اس سے پہلے ایسی آواز اپنی پوری زندگی میں انھوںنے کبھی نہیں سنی تھی۔ دل میں تیر کی طرح چبھنے والی آواز ۔
’’یہ کسی منحوس پرندے کی آواز۔‘‘غلام حیدر نے کہا۔
’’ہاں مجھے لگتا ہے تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘
’’وہ دیکھیے دیوار کی منڈیر پر ۔‘‘
’’ہاں وہ بیٹھا ہے ،ماردو۔‘‘شیخ سلیم الدین نے بے ساختہ کہا۔
’’مگرکیسے؟ کیاہمارے پاس۔۔۔‘‘
اورشیخ صاحب نے گہری سانس لی۔’’کبھی سوچابھی نہیں تھا اس حویلی کی دیوار پرایک دن کوئی منحوس پرندہ بھی آبیٹھے گا۔ ‘‘
پوپھٹنے لگی تھی، روشنی پھیلتی جارہی تھی مگرپرندہ دیوار پربدستور بیٹھارہا اورجب وہ صاف دکھائی دینے لگا توشیخ سلیم الدین اورغلام حیدر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اورنظریں جھکالیں۔ دراصل یہ ان کاپالتو کبوتر تھا جسے رات غلام حیدر بدحواسی میں دڑبے میں بند کرنابھول گیا تھا۔ اب دھوپ کی کرنیں آنگن میں اترآئی تھیں مگرصدردروازے کاتالا ابھی تک کھلا نہیں تھا۔ جب دوپہر ہونے کوآئی تو غلام حیدر نے کہا۔
’’آپ کہیں توکوئی انتظام کروں؟ ضروری سامان کے ساتھ ہم لوگ دوپہر میں ہی نکل چلتے ہیں ۔ اس طرح اورراتیں گذارنے کی اب ہمّت نہیں۔‘‘
شیخ سلیم الدین خاموش رہے مگرغلام حیدر نے سنا کہ وہ کہہ رہے ہیں ۔
’’ہاںجلدی سے کوئی انتظام کرلو۔‘‘
سورج ڈوب رہاتھا۔ سامنے ہزاروں نکیلے پنجوں والااوبڑکھابڑ اورٹیڑھا ترچھا بھیانک راستہ زمین کے سینے سے چمٹا پڑاتھا۔ غلام حیدر نے خود کوتسلی دی۔
’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے ،خطرے سے باہرنکل آئے۔ کوئی اور سواری تو مل نہیں سکی، بھلاہو رام رتن اونٹ گاڑی والے کا کہ اپنی شکرم دے دی۔ رات ہونے سے پہلے ہی نجیب گنج پہنچ جائیں گے ۔نواب صاحب کی گڑھی بہت محفوظ ہے۔ صبح تک وہیں قیام کریںگے۔ اس کے ۔‘‘
’’اس کے بعد۔ ۔۔۔؟‘‘ اوردونوں خاموش ہوگئے ۔ شیخ سلیم الدین نے گاڑی پر رکھے سامان سے ٹیک لگائی ہی تھی کہ غلام حیدر کی نظرداہنی طرف آتی بھیڑ پرپڑی اوروہ سہم گیا۔
’’ابّاحضور۔۔۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ دیکھیے۔‘‘
’’ہاں کچھ دھواں سااٹھ رہا ہے ۔شاید کسی کے کھلیان میں آگ لگی ہے۔‘‘
’’نہیں ابّاحضور بھیڑ ہماری طرف بڑھ رہی ہے ۔لگتا ہے ہماری بستی کے ہی لوگ ہیں۔ نالاپارکرکے آئے ہیں،اسی لیے اتنی جلدی ۔۔۔‘‘
’’آہستہ بولو۔ عورتیں گھبراجائیںگی۔‘‘
’’لیکن وہ لوگ بہت قریب آچکے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر غلام حیدر نے لوہے کی ایک لمبی چھڑ سامان سے کھینچ کر ہاتھ میں تھام لی۔ بیگم صاحبہ نے جب یہ دیکھا تو نہ وہ چیخیں اورنہ گھبرائیں بلکہ اطمینان کے ساتھ کھسک کرشیخ صاحب کے قریب آگئیں۔ بس اتنا کہا۔
’’میں کبھی کچھ نہیں بولی مگرآج۔۔۔‘‘
شیخ سلیم الدین نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا اور ان کی حیرانی لمبے سکوت میں تبدیل ہوگئی۔
’’آگرآپ نے غلام حیدر کی بات مانی ہوتی توآج ۔۔۔‘‘
’’ہاں ابّاحضور،آج اگرہمارے پاس بندوق ہوتی تویہ لوگ۔۔۔‘‘
’’اطمینان رکھو۔‘‘
’’اب ابھی آپ یہ کہہ رہے ہیں، جبکہ ہماری جانیں ہی نہیں عزت بھی ۔۔۔‘‘
’’نہیں غلام حیدر۔۔۔بس اللہ کویاد کرو۔‘‘
یہ کہہ کر شیخ سلیم الدین کچھ وقفے کے لیے چپ ہوگئے، پھر کچھ سوچ کربولے ۔
’’غلام حیدرشاید تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ گاڑی کے چاروں طرف پھیل گئی ۔شیخ صاحب نے دیکھا کہ سامنے وکیل دیانند کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
’’ابّا حضور وکیل صاحب بھی ۔۔۔‘‘
’’یہ کیسے ہوگیا غلام حیدر۔ وکیل صاحب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ٹھیک طرح دیکھو وکیل صاحب ہی ہیں؟‘‘
ٹھیک طرح دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ وکیل دیانند ،سیٹھ دیوی سرن اور پنڈت ہرپرشاد نے شیخ صاحب کے دونوں بازوپکڑکرگاڑی سے اتار لیا۔ غلام حیدر بھی والد کو بچانے کے لیے اتراکہ کچھ لوگوں نے اسے اپنے دائرے میں لے لیا اور ایک شخص نے اونٹ کی نکیل اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ غلام حیدر نے دیکھا کہ اس کے والد قصبے کے معزز لوگوں کی گرفت میں بے بس اورشکستہ شخص کی مانند اس طرح کھڑے ہیں جیسے خود کو پورے طورپروقت کے سپرد کرچکے ہوں۔ وکیل دیانند نے ان کے بازو چھوڑدیے اورہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے۔
’’شیخ صاحب ،یہ آپ کیاکررہے ہیں؟‘‘
سیٹھ دیوی سرن نے جھک کران کے گھٹنے پرہاتھ رکھ دیا۔’’ہماری اوربستی کی عزّت آپ کے چرنوں میں ہے۔‘‘
پنڈت ہرپرشاد نے آہستہ سے کہا۔’’چلیے واپس ۔۔۔ہم آپ کو اس طرح نہیں جانے دیںگے۔‘‘
شیخ سلیم الدین نے آنکھیں بند کرلیں۔
’’ابّاحضور۔‘‘
چونک کرآنکھیں کھولیں۔’’غلام حیدر۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے ،لیکن زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔ غلام حیدر بھی خاموش تھا مگراس کی آواز جنگلوں میں ،صحرائوں میں، غاروں اور وادیوں میں، مسجدوں میں، مندروں میں اورکلیسائوں میں ، نالے کے پاربستی کے اجڑے مکانوں میں اوراس کے والد شیخ سلیم الدین کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ وہ خاموش تھااور شیخ سلیم الدین سن رہے تھے ۔
’’ہاں ابّا حضور میں نے دیکھ لیا۔ جسے بچپن سے اب تک نہیں دیکھاتھا اسے دیکھ لیا۔ آپ کی بندوق کو۔ جوایسے وقت کام آئی ،جس نے ایسے موقع پرجان بچائی ،جب ساری بندوقیں اپنے مالکوں کوہلاک کررہی ہیں۔‘‘
’’غلام حیدر چلو۔‘‘کسی نے آہستہ سے کہا۔ نکیل تھامے شخص نے رسی کھینچی ،اونٹ کی گردن گھومی ،شکرم کے اگلے پہیے مڑے اورغلام حیدر نے دیکھا کہ سامنے سیدھا اورہموار راستہ زمین سے گلے مل رہا ہے۔
اورپھر سب لوگ اپنے قصبے نظام پور کی طرف چل پڑے۔!!