آخری وار کر رہا ہوں میں
آخری وار کر رہا ہوں میں
اپنا انکار کر رہا ہوں میں
آڑ اپنے ہی جسم کی لے کر
روح کو تار کر رہا ہوں میں
اپنے دکھ بانٹ کر زمانے میں
کتنا ایثار کر رہا ہوں میں
ہے محبت بھی کار فن کہ جسے
دل سے ہر بار کر رہا ہوں میں
کس مہارت سے اس ڈرامے میں
اپنا کردار کر رہا ہوں میں
تیر کھانے سے اس کے اس فن میں
اس کو فن کار کر رہا ہوں میں
کچھ تو بیمار ہے وہ پہلے سے
اور بیمار کر رہا ہوں میں
دوست احباب کیوں خجل ہیں آج
ذکر اغیار کر رہا ہوں میں
میں اگر جا چکا تو پھر کس سے
اب بھی تکرار کر رہا ہوں میں
اپنی ناکامی کی دعا کر کے
مرضی یاد کر رہا ہوں میں
خود ہی تعمیر کر کے بت اپنا
خود ہی مسمار کر رہا ہوں میں
اک نہ اک شے ہر عمر میں اب بھی
بے سروکار کر رہا ہوں میں
کوئی تو مجھ سے ہار کر جیتے
سب سے ہی ہار کر رہا ہوں میں
جانے کس عہد کے لیے راشدؔ
اس کو تیار کر رہا ہوں میں