آج مجھ کو بھی مرے احباب دھوکہ دے گئے

آج مجھ کو بھی مرے احباب دھوکہ دے گئے
میں توانا شخص تھا اعصاب دھوکہ دے گئے


گاؤں کی کچھ لڑکیاں اپنے گھڑے بھرنے گئیں
خشک تھا پانی وہاں تالاب دھوکہ دے گئے


جو نظر آتے تھے اکثر ان جبینوں پر تجھے
کیا کریں ماتھے کے وہ محراب دھوکہ دے گئے


اپنے ہاتھوں سے کھلاتا تھا مگر وہ اڑ گئے
آج مجھ کو وہ مرے سرخاب دھوکہ دے گئے


میں معافی چاہتا ہوں مجھ سے غلطی ہو گئی
کچھ بھی مشکل تھا نہیں اعراب دھوکہ دے گئے


آج سے میں ہجر کاٹوں گا تسلی سے سحرؔ
جو کبھی دیکھے تھے میں نے خواب دھوکہ دے گئے