آج کل بھیس میں لیڈر کے ہے شیطاں سمجھا
آج کل بھیس میں لیڈر کے ہے شیطاں سمجھا
مگر اس بھید کو ہندو نہ مسلماں سمجھا
پیرہن جسم کے ہم رنگ تھا اس کے اتنا
کوئی ملبوس اسے سمجھا کوئی عریاں سمجھا
گر یہی قدر سخن ہے تو سخن پر لعنت
ایک قوال کو تو شاعر دوراں سمجھا
بن کے مہماں جو گیا ہو گیا جوتا غائب
میزبانی کے نہ اس راز کو مہماں سمجھا
جب ہی اس شوخ نے پوچھا کہ تخلص کیا ہے
دیکھ کر شکل مری مجھ کو غزل خواں سمجھا
باپ تھا اس کا کھڑا در پہ مگر خیر ہوئی
یعنی وہ مجھ کو گدا میں اسے درباں سمجھا
اس کے آنچل میں گھسا تھا کوئی جگنو ہاشمؔ
اور میں اس کو چراغ تہ داماں سمجھا