آج حد سے گزر گیا ہے وہ
آج حد سے گزر گیا ہے وہ
عشق کر کے مکر گیا ہے وہ
نقش پا تک نظر نہیں آتا
کون جانے کدھر گیا ہے وہ
جتنا پانی تھا گہرے دریا کا
ایک کوزے میں بھر گیا ہے وہ
موت سے بھی بڑی سزا ہے یہ
دل مرا توڑ کر گیا ہے وہ
نورؔ خالی جگہ نہیں دل میں
زخم ہی زخم بھر گیا ہے وہ