آج بستی میں تری سانحہ ایسا دیکھا

آج بستی میں تری سانحہ ایسا دیکھا
ہم نے ہر آنکھ میں بپھرا ہوا دریا دیکھا


جانے تعبیر ہو اب کیسی خدا خیر کرے
رات پھر خواب میں کھلتا ہوا غنچہ دیکھا


اس نے پوچھا بھی نہیں راہ کی کیوں دھول ہوئے
عمر بھی بیٹھ کے جس شخص کا رستہ دیکھا


جو پہاڑوں سے چلے زیست کا ساماں لے کر
ہم نے ہر جھرنے میں اک نور کا دھارا دیکھا


آئنہ کہنے لگا کان میں چپکے چپکے
بے عمل شخص کوئی اور نہ تجھ سا دیکھا


پھول شاخوں پہ کھلے آپ سے اور پھر نہ ملے
موسم ہجر نہ کچھ تو نے بھی سوچا دیکھا


جانے کیوں کر وہ پریشان سا رہتا ہے رضاؔ
جب بھی دیکھا ہے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھا