آئیں کیوں ہچکیاں نہیں معلوم

آئیں کیوں ہچکیاں نہیں معلوم
کون ہے مہرباں نہیں معلوم


خود بخود جھک گئی جبین شوق
کس کا تھا آستاں نہیں معلوم


بے خودی میں بڑھا رہا ہوں قدم
جا رہا ہوں کہاں نہیں معلوم


ساکن عرش تھا کبھی میں بھی
کیسے آیا یہاں نہیں معلوم


جا رہا ہوں غبار کے پیچھے
ہے کہاں کارواں نہیں معلوم


یاد اتنا ہے برق چمکی تھی
کیا ہوا آشیاں نہیں معلوم


کہتے کہتے فسانہ غم کا سعیدؔ
رک گئی کیوں زباں نہیں معلوم