آئی بہاریں مہکا گلشن
آئی بہاریں مہکا گلشن
کلیاں چٹکیں مرجھایا من
من ہی من میں یاد کے جھولے
آنکھوں آنکھوں برسے ساون
ہر تارا ہے اک چنگاری
رات اندھیری کالی ناگن
ہر دستوں میں ان کی مورت
ذرہ ذرہ جیسے درپن
دل میں بسیں آنکھوں میں براجیں
گھر ہے جس کا اس کا آنگن
جتنی پگ سے دور ہے دھرتی
اتنے من کے پاس ہیں ساجن
آس نراس کے سب دھوکے میں
کیسی دوری کیسا درشن
کس کا شکوہ کیجئے اشرفؔ
اپنا من ہے اپنا دشمن