آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا

آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا


تم روز و شب جو دست بدست عدو پھرے
میں پائمال گردش ایام ہو گیا


میرا نشاں مٹا تو مٹا پر یہ رشک ہے
ورد زبان خلق ترا نام ہو گیا


دل چاک چاک نغمۂ ناقوس سے ہوا
سب پارہ پارہ جامۂ احرام ہو گیا


کیا اب بھی مجھ پہ فرض نہیں دوستیٔ کفر
وہ ضد سے میری دشمن اسلام ہو گیا


اللہ رے بوسۂ لب مے گوں کی آرزو
میں خاک ہو کے درد تہ جام ہو گیا