آئے تھے پردیس میں دو چار برسوں کے لئے

آئے تھے پردیس میں دو چار برسوں کے لئے
رو رہے ہیں بیٹھ کر آئندہ نسلوں کے لئے


غیر ملکی ہیں یہاں پر ہم وطن میں اجنبی
بیچ دی پہچان اپنی ہم نے پیسوں کے لئے


کر دیا مزدوریوں نے بوڑھا ہم کو اس طرح
بن پروں کے جیسے پنچھی ہوں اڑانوں کے لئے


کچھ پہ کچرا گھر بنے ہیں کچھ پہ قبضہ ہو گیا
چھوڑ آئے تھے زمیں جو ہم مکانوں کے لئے


ہم غریبان وطن کی قتل گاہیں بن گئیں
بستیاں مشہور تھیں جو خوش جمالوں کے لئے


کرتے ہیں ہم ذکر رب کا ہونٹ اپنے بھینچ کر
کھولتے ہیں اب زباں دھیمی اذانوں کے لئے


ایک پرکھوں کا ظفرؔ ہے دوسرا بچوں کا ہے
دیس کوئی بھی نہیں ہے میرے جیسوں کے لئے